سوال:-مسجد کی وہ اشیاء جو استعمال کے قابل نہی ہوں جیسے چٹای وغیرہ انکا کیا کریں جلاے یا دفنایں یا کوڑے میں ڈال دیں؟

الجواب وباللہ التوفیق مسجد کی وقف اشیاء خواہ وہ پرانی ہی کیوں نہ ہوں مسجد کی مملوکہ ہیں، ان کو ضائع کرنا صحیح نہیں ہے، ان پرانی اشیاء کو بیچ کر رقم مسجد ہی کے استعمال میں لانا چاہیے، وقف اشیاء کا تلف کرنا جائز نہیں

وذکر أبو اللیث في نوازله: حصیر المسجد إذا صار خلقاً واستغنی أهل المسجد عنه وقد طرحه إنسان إن کان الطارح حیاً فهو له وإن کان میتاً ولم یدع له وارثاً أرجو أن لا بأس بأن یدفع أهل المسجد إلی فقیر أو ینتفعوا به في شراء حصیر آخر للمسجد. والمختار أنه لایجوز لهم أن یفعلوا ذلک بغیر أمر القاضي، کذافي محیط السرخسي". ( الفتاویٰ الهندیة، /الباب الحادي عشر في المسجد وما یتعلق به/ ٤٢٨/٢/ ط: بيروت ) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم

سونا (Gold) کا بونڈ خریدنا کیسا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کے آربی آئی مشتری کے نام ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے موجودہ قیمت کے لحاظ سے، پھر ایک طے شدہ مدت کے بعد اسے مارکیٹ ویلو کے اعتبار سے آپ فروخت کرسکتے ہیں واضح رہے کہ آپ سونے کو اپنے قبضے میں نہیں لے سکتے ہیں ۔ کیا اس طرح سونے کا بونڈ خریدنا جائز ہے جواب عنایت فرمائیں جزاکم اللہ خیرا

الجواب وبالله التوفيق: واضح رہے کہ “بونڈ” سے مراد وہ قرضہ ہے جو کسی حکومت یا کمپنی کی طرف سے اس شرط پر دیا جائے کہ قرض دار اس قرضے کو سود کی ایک خاص مقدار کے ساتھ ادا کرے گا۔ معلوم ہوا کہ بونڈ لینا ایک سودی معاملہ ہے جس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں؛ لہذا مذکورہ صورت میں سونے کا بونڈ خریدنا شرعاً جائز نہیں ہے۔مستفاد از: (فتاوى دار العلوم زكريا، ٣٧٩/٥، ط: الأشرفية ديوبند) (تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ١٣٠/٢، ط: بیت العمار کراچی)

\(١): وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا. (سورة البقرة، الآية: ٢٧٥)

السند (Bonds) في الاصطلاح المعاصر وثيقة يصدرها المديون لمقرضه اعترافا منه بأنه استقرض من حاملها مبلغا معلوما يلتزم بأدائه في وقت معلوم.... إن هذه السندات كلها ربوية من أصلها، حيث إن المقروض يلتزم فيها بأداء مبلغ القرض وزيادة، فلا يخفى حرمة تداولها لأنها تؤدي إلى تعامل ربوي حرام. (بحوث في قضايا فقهية معاصرة/البحث الرابع عشر: بيع الدين والأوراق المالية وبدائلها الشرعية، ٢٣/٢، ط: قطر) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

Leave a Comment