الجواب بعون الملك الوهاب
واضح رہے کہ صدقہ نافلہ کا مقصود جس طرح گناہ معاف ہونا ہے وغیرہ، اسی طرح صدقہ سے علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے، نیز غیر مسلم کے لیے صحت یابی کی دعا کرنا درست ہے،لہذا صورت مسؤلہ میں غیر مسلم کی جانب سے صدقہ نکالنا درست ہے، البتہ اس صدقہ سے صرف دنیاوی فائدہ ہوگا اخروی کوئی فائدہ نہ ہوگا، نیز بہتر ہوگا کہ صدقہ کرنے کے بعد غیر مسلم شخص کو اطلاع بھی کی جائے تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل ہو _ فقط – واللّه ورسوله أعلم بالصّواب
عن علي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بادروا بالصدقه فان البلاء لا يتخطاها (مشکوة شریف/باب فضل الصدقه)__ (بیھقی - رقم٣٣٥٣)
ایک شخص غیر مسلم کی دکان پر گیا اس نے کچھ سامان خریدا جب دکاندار نے سامان دیا تو اس نے کہا جزاک اللہ بعد میں اس کے دوست نے کہا ارے یار جزاک اللہ تو مسلمان سے کہا جاتاہے آپ نے تو دکان والے سے کہ دیا، معلوم یہ کرنا ہے کیا غیر مسلم سے بھی جزاک اللہ کہ سکتے ہیں ؟
الجواب وبالله التوفيق =
واضح رہے کہ کسی غیر مسلم کے لیئے دعا کرنا اور اس کو دعایٔہ جملہ کہنا درست نہیں ہے، اور جزاک اللّه یہ بھی دعایٔہ جملہ ہے، لہذا کسی غیر مسلم کو جزاک اللّه کہنا درست نہیں ہے، البتہ اسکی ہدایت کے لیے دعا کرنا اور ھداك الله جیسے جملہ کہنا بہتر ہے، فقط
اعلم أنه لا يجوز أن يدعى له بالمغفرة وما أشبهها مما لا يکون للكفار، لكن يجوز أن يدعى بالهداية وصحة البدن والعافية وشبه ذلك. روينا في كتاب ابن السني عن أنس رضي الله عنه قال: استسقى النبي (صلى الله عليه وسلم) فسقاه يهودي، فقال له النبي (صلى الله عليه وسلم): ” جملك الله ” فما رأى الشيب حتى مات.(الأذكار للنووی/٣١٧_بیروت)
ایک شخص کا معمول ٢٠ رجب کو زکوٰۃ نکالنے کا ہے، اس نے ٢٠ تاریخ کو حساب لگا لیا تھا، ابھی زکوٰۃ ادا نہیں کی تھی ٢٦ رجب تک تک اس کے پاس مزید مال آگیا تو اس مزید مال کی زکوٰۃ بھی اِسی سال ادا کرنی ہوگی؟
الجواب وبالله التوفيق:
ذکر کردہ صورت میں بیس تاریخ کے بعد جو مال میں اضافہ ہوا ہے، اس کو سالِ گزشتہ کی زکوٰۃ میں نہیں جوڑا جائے گا؛ بلکہ اگلے سال مقررہ تاریخ میں جو مال موجود ہوگا اسی کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔