الجواب وبالله التوفيق:
سوال مذکور میں زید کا یہ عقیدہ گھڑنا کہ تمام سنن و نوافل ایجاد بندہ ہیں بہ صراحت فقہاء موجبِ کفر ہیں؛ کیونکہ یہ در اصل استخفاف دین اور انکار حدیث پر مشتمل ہے، یاد رہے شریعت احکام الہیہ کا نام ہے بندہ شریعت بنانے پر قادر نہیں؛ لہذا زید کو ایسے کفریہ عقائد سے فوراً توبہ کرنی چاہیے اور ساری سنن و نوافل کو حق سمجھنا چاہیے۔
قلت: إنما لم يقل بوجوبها لأنه عليه السلام ساقها مع سائر السنن في حديث المثابرة، وقالوا العالم إذا صار مرجعا للفتوى يجوز له ترك سائر السنن لحاجة الناس إلا سنة الفجر، وذكر التمرتاشي في "الأمالي"ترك الأربع قبل الظهر والتي بعدها وركعتي الفجر لا يلحقه الإساءة إلا أن يستخف به، ويقول هذا فعل النبي وأنا لا أفعل، فحينئذ يكفر، وفي النوازل وفوائد الرستغفني من ترك سنن الصلوات الخمس ولم يرها حقا كفر، ولو أرها حقا وترك قيل لا يأثم، والصحيح أنه يأثم، لأنه جاء الوعيد بالترك.
(البناية/كتاب الصلاة/باب النوافل، ٥٠٦/٢)
وفي التجنيس والنوافل والمحيط: رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقا فقد كفر لأنه ترك استخفافا، وإن رأى حقا منهم من قال لا يأثم والصحيح أنه يأثم لأنه جاء الوعيد بالترك.
(البحر الرائق/كتاب الصلاة/باب الوتر والنوافل، ٨٠/٢، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
رجل ترك سنن الصلوات الخمس، إن لم ير السنن حقا، فقد كفر، وإن رأى السنن حقا، منهم من قال: لا يأثم، والصحيح أنه يأثم.
(المحيط البرهاني/كتاب الصلاة/الفصل الحادي عشر: التطوع قبل الفرض وبعده، ٢٣٦/٢، رقم: ١٦٤٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.
1 thought on “سوال:-کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ جتنی فرائض نماز ہیں ان کا حکم اللہ اور اللہ کے رسول نے دیا ہے اور ما بقیہ جو سنن و نوافل ہیں ان کو بندوں نے ایجاد کیا ہے، سب انسانوں نے بنا رکھا ہے تو کیا ایسا شخص اسلام سے خارج ہے،اور اگر اسلام سے خارج نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے”