١.سوال:-اگر زکوۃ کا مال کسی غریب طالب علم کو دے کر اس سے یہ کہا جائے کہ مدرسے کا مال ہے یا مدرسہ کے اندر ضروریات ہے کوئی انتظام نہیں ہے لہذا اس کو مدرسہ میں جمع کر دو اور وہ جمع کر دے اس طرح سے تملیک ہو جائے گی یا نہیں یا ان میں کوئی تفصیل ہے؟

جواب:-صورت مسئلہ میں اگر وہ طالب علم برضا و رغبت مدرسے میں کر دے تو اس طالب علم کو اس عمل کا ثواب بھی ملے گا اور اس زکوۃ دینے والے کا زکوۃ ادا ہو جائے گا اور تملیک بھی ہو جائے گی ہاں یہ حیلہ تملیک صرف ضرورت کے وقت ہی کیا جائے۔فقط واللہ اعلم۔

ويشترط ان يكون الصرف تمليكا لا اباحة كما مر لا يصرف الى بناء نحو مسجد كبناء القناطر...(رد المختار: ٢٩١/٣ كتاب الزكاة باب المصرف زكريا ديوبند)

لا يجوز الزكاة الا بقبض الفقراء...(تاتارخانية:٢٠٦/٣ كتاب الزكاة ط: زكريا ديوبند)

وانفع للمسلمين بتعليم .... التصدق على العالمين الفقير افضله اي من الجاهل الفقير.... والابصل صرفها الاقرب والاقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم جيرانه......(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:٧٢٢،كتاب الزكاة زكريا ديوبند)

سوال:-زکوۃ کا مال مدارس میں دینا زیادہ بہتر ہے یا غریبوں کو یا حالت کے اعتبار سے دونوں ممکن ہیں یا ان میں کوئی تفصیل ہے بیان کریں؟

جواب:-زکوۃ فقراء اور مساکین کا حق ہے اور یہ فقراء عام ضرورت مند بھی ہو سکتے ہیں اور مدارس کے طلباء بھی لہذا قرائن اور حالت دیکھتے ہوئے جہاں ضرورت مند زیادہ ہو وہاں خرچ کرنا زیادہ ثواب ہوگا یعنی دونوں ممکن ہیں مثلا اپ کے پڑوسی یا قریبی رشتہ دار ضرورت مند ہو تو ان کو دینے سے دوگنا ثواب ملے گا ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی کا اسی طرح مدارس میں قرض کرنے سے زکوۃ کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کے نشر اشاعت کا بھی ثواب ملتا ہے۔فقط واللہ اعلم

انما صدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفه قلوبهم (صورة التوبة: الآية:٦)

سليمان بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ان الصدقة على المسكين صدقة وعلى ذي رحم اثنتان وصدقة وصلة....(سنن الترمذي:١٤٢/١،رقم الحديث: ٦٥٣)

مصرف الزكاة هو فقير.... عن طالب العلم يجوز له الزكاة ولو غنيا اذا فرغ نفسه لا فاده العلم .... والتصدق على العالم الفقير افضل عين جاهل الفقير....(دور المختار مع شامي: ٢٨٣/٣-٣٠٤،كتاب الزكاة زكريا دوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص زکوۃ ادا نہ کرے تو اس کا وبال کیا ہے نیز اگر کوئی شخص کچھ دنوں کی زکوۃ ادا کرے اور کچھ دنوں کی زکوۃ ادا نہ کرے یا کچھ مالوں کی زکوۃ ادا کرے اور کچھ مالوں کی زکوۃ ادا نہ کرے تو ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-صورت مسئلہ میں قرآن و حدیث میں اس کا وبال زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے بہت وعیدیں آئی ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے یعنی جو لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو ان کے مال کو جہنم کی اگ میں گرم کر کے اس سے اس کی پیشانیوں پہلوؤں اور پٹھوں کو داغا جائے گا دوسری جگہ ارشاد ہے یعنی ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا مسلم شریف میں ہے یعنی ایسی شخص کے لیے اگ کی چٹائی بچھائی جائے گی اور اس سے ایسے شخص کے پہلو پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔فقط واللہ اعلم

والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله.... الآية (سورة التوبه: رقم الآية:٣٤-٣٥)

سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة.. الآخ (سورة ال عمران: رقم الآية:١٨٠)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من صاحب ذهب ولا فضة ولا يودي منها حقها الا اذا كان يوم القيامة صفحت له ضياع من نار فاحمي عليها في نار جهنم ويكوي بها جنبه وجبينه و ظهره....(مسلم شريف: ٦٨٠/٢ كتاب الزكاة باب اثم مانع الزكاة)

1 thought on “١.سوال:-اگر زکوۃ کا مال کسی غریب طالب علم کو دے کر اس سے یہ کہا جائے کہ مدرسے کا مال ہے یا مدرسہ کے اندر ضروریات ہے کوئی انتظام نہیں ہے لہذا اس کو مدرسہ میں جمع کر دو اور وہ جمع کر دے اس طرح سے تملیک ہو جائے گی یا نہیں یا ان میں کوئی تفصیل ہے؟”

Leave a Comment