جواب:-مسجد کی تعمیر یا کسی بھی کام میں لگانا درست نہیں ہے( یعنی صدقات واجبہ اور زکوۃ کی رقم) اس لیے کہ اس میں صرف امداد ہی کا پیسہ لگانا چاہیے اور زکوۃ کا مال یہ فقراء مساکین کے لیے ہے. فقط واللہ اعلم
ولا يجوز ان يبني بالزكاة المسجد...... وكل ما لا تملك فيه..(الهنديه: ٢٥٠/١،كتاب الزكاة زكريا دوبند)
والايتاء: وهو التمليكه لقوله تعالى (واتوا الزكاة) فلا قتادى بطعام اباحة وبما ليس بالتمليك رأسا من بناء المسجد ونحو ذلك بما ليس بتمليك من كل وجه (بدائع الصنائع:١٨٩/٢،ما يسقط بعد الوجوب زكريا ديوبند)
واما ركنه فهو التمليك لقوله تعالى: (واتوحقه يوم حصاده:(الاعراف: ١٤١)
سوال:-اگر کسی کے پاس نصاب سے کم سونا یا چاندی ہو یعنی نصاب سے کم دونوں ہو یعنی نصاب سے کم کچھ روپے کچھ چاندی ہو تو اسی صورت میں کس کا اعتبار ہوگا اور کس طرح زکوۃ نکالی جائے گی؟
جواب:-سورت مسئلہ میں اس وقت دونوں کو ملایا جائے گا جو سونا ، چاندی نصاب سے کم ہے،پھر جب ملایا ہوا دونوں کو اگر دونوں کی قیمت مل کر سونے یا چاندی کے کسی نصاب کو پہنچ جائے تو زکوۃ واجب ہو جائے گی مثلا اج کل سونیا اور چاندی کی قیمتوں میں بڑا فرق ہو گیا ہے اب اگر کسی کے پاس ڈیڑھ تولہ سونا ہے اور چاند تولہ چاندی ہے تو دونوں کی جب قیمت لگائی جائے تو چاندی کے اعتبار سے نصاب تک پہنچ جائے ، لہذا زکوۃ واجب ہوگی اور نہ نہیں۔
ولو فضل من النسابين اقل من اربعة مساقيل واقل من اربعين درهما فانه تضم احدى زيادتين الى الاخرى... ولو ضم احد النصابين الى الاخرى حتى يودي كله من الذهب او من الفضة..(الهنديه: ٢٤١/١،كتاب الزكاه زكريا ديوبند)
ويضم الذهب الفضة وعكسه بجامع الثمانية قيمة وقال بالاجزاء...(رد المختار مع الشامي: ٢٣٤/٣-٢٣٥ كتاب الزكاة باب الزكاة المال زكريا ديوبند)
ويضم الذهب الى الفضة والفضة الى الذهب ويكمل احد النصابين بالاخرى عند علمائنا.... وفي الخلاصة: يكمل احد النصابين بالاجزاء...(٠التاتارخانية:١٥٨/٣،كتاب الزكاة زكاة المال زكريا ديوبند)
سوال:-مال نامی کس مال کو کہتے ہیں مثال دے کر جواب بیان کریں؟
جواب:-مالی نامی اس مال کو کہتے ہیں جو پڑھنے والا مال ہو خواہ حقیقتا بڑھیں یا حکم اس بڑھنے کی 3 سورتیں ہیں- (1) تجارت سے بڑھنا (2). افزائش نسل سے بڑھنا (3). خلق یعنی پیدائش طور پر نامی ہونا جیسے سونا چاندی وغیرہ-
1 thought on “١.سوال:-اگر کوئی شخص زکوۃ کا مال مسجد کی تعمیر میں لگائے تو یہ شرعا درست ہے یا نہیں؟”