الجواب وباللہ التوفیق
واضح رہے کہ بینک سےلون لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے، جس کا لینا دینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے،چوں کہ کسی بھی بینک سے لون لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے، اس لیے کسی بھی بینک سے لون لینا، خاص کر عام حالات میں ہرگز جائز نہیں ہے، لہذا اگر لون لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور سے غیر سودی قرضہ حاصل کر یں، نیز اگر کاروبار کرنا ہےتو اپنی طاقت اور استعداد کے بقدر جو کاروبار کرسکتے ہیں وہ کریں،چھوٹے پیمانے سے ہی کام شروع کردیں فقط_ واللہ أعلم باالصواب
(مستفاد: کتاب النوازل٢٠٣/١١__فتاوی قاسمیہ ٣١/٢١)
عن جابررضى الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آ كل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء." ( مشكاة المصابيح ،باب الربوا، ص: 243، ط: قدیم)
والثاني انه معلوم ان ربا الجاهلية انما كان قرضا مؤجلا بزيادة مشروطة فكانت الزياده بطلا من الأجل فابطله الله وحرمه (أحكام القران للجصاص- تحت آية انما الخمر والميسر والانصاب..467/1)
وهو ربا اهل الجاهلية، وهو القرض المشروط فيه الأجل وزياده مال على المستقرض(أحكام القران للجصاص، سورة البقره ٥٦٩/١)
سوال :- قارون ایمان میں داخل ہوا تھا یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق
قارون حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں ایک شخص تھا اور حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کا رشتہ دار تھا البتہ رشتہ دارری کیا تھی اس میں حضرات مفسرین کا اختلاف ہے، اور وہ پہلے مومن شخص تھا اور تورات کا حافظ تھا لیکن پھر بعد میں اس نے کفر اختیار کیا اور روایات، آیات، احادیث ، اور جزئیات کی روشنی میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا انتقال کفر پر ہوا ہے حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ضمنا اس کے کفر کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔
بیان القران ۱۲۱/۲میں ہے اور قران مجید میں ایک جگہ اس قدر آیا ہے فكلا اخذنا بذنبه آگے اس کی تعمیل میں فرمایا ہے اور ومنهم من خسفنا به الارض اور ذنب عام ہے ممکن ہے کہ یہی ذنب مذکور ہو یا اس کے سوا اور بھی ہو اور سب سے بڑھ کر کفر کرنا اور ایمان نہ لانا ذنب ہے شاید یہ پہلے ہی ایمان نہ لایا ہو جیسا کہ سورہ مومن میں آیت ولقد ارسلنا موسى باياتنا وسلطان مبين الى فرعون وهامان وقارون فقالوا ساحر كذاب .الاخ سے بظاہریہی معلوم ہوتا ہے ۔
جزئیات ملاحظہ فرمائیں:
قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَا مَنَ وَ لَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَ مَا كَانُوا سَبِقِيْنَ - فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَ مِنْهُمْ مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ . (سورۂ عنکبوت ۳۹-۴۰)
وله تعالى : ﴿وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ قال الكسائي : إن شئت كان محمولاً على عاد، وكان فيه ما فيه، وإن شئت كان على فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وصد قارون وهامان ، وقيل : أي وأهلكنا هؤلاء بعد أن جاءتهم الرسل (فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ) عن الحق وعن عبادة الله . ﴿وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ) أي فائتين . وقيل : سابقين في الكفر بل قدسبقهم للكفر قرون كثيرة فأهلكناهم. (الجامع لاحكام القران ۳۴۴/۱۳،دار احياء التراث العربي)
﴿وَيَكانهُ لَا يُفْلِحُ الكَفِرُونَ ) ، يعنون أنه كان كافراً، ولا يفلح الكافرون عند الله، لا في الدنيا ولا في الآخرة. (تفسیر ابنِ کثیر زکریا ۳۷/۵، سورۂ قصص تحت رقم الآیۃ ۸۳
امام ابوحنیفہ رحمہ نے کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت کی ہے ؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بعض محدثین مثلا امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کسی بھی صحابی سے رؤیت اور ملاقات کا انکار کیا ہے لیکن اکثر محدثین نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی چند صحابہ کرام سے ملاقات اور رویت کو ثابت مانا ہے(کہ امام ابو حنیفہ تابعی ہیں) اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر صحابہ کرام سے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے روایت نقل کرنے کو ثابت کیا ہے اگرچہ بعض محدثین نے اس کا انکار کیا ہے لیکن علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ کئی صحابہ سے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مروی روایات ہیں چنانچہ چند احادیث بطور دلیل کے ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
قد ألف الإمام أبو معشر عبد الكريم بن عبد الصمد الطبري المقري الشافعي جزء فيما رواه الإمام أبو حنيفة عن الصحابة ذكر فيه : قال أبو حنيفة لقيت من أصحاب رسول الله ﷺ سبعة : 1 - أنس بن مالك،۲ - وعبد الله بن جزء الزبيدي - وجابر بن عبد الله ، ٤ - ومعقل بن يسار، ه - ووائلة بن الأسقع، ٦ - وعائشة بنت عجرد، رضي الله عنهم. ثم روى له عن أنس ثلاث أحاديث وعن ابن جزء حديثاً، وعن واثلة حديثين، وعن جابر حديثاً، وعن عبد الله بن أنس حديثاً، وعن عائشة بنت عجرد حديثاً، وروي له أيضاً عن عبدالله بن أبي أوفى حديثاً. ( تبييض الصحيفة بمناقب ابي حنيفه۳۳، ذكر من ادركه من الصحابه رضي الله عنهم، دار الكتب العلميه بيروت)
احادیث ملاحظہ فرمائیں: (١) دع ما يريبك الى ما لا يريبك. (٢) لا تظهر الشماته لاخيك فيعافيه الله ويبتليك. ثم قال أبو معشر أنا أبو عبد الله حدثنا إبراهيم حدثنا أبو بكر الحنفي، حدثنا أبو سعيد الحسين بن أحمد ثنا علي بن أحمد بن الحسين البصري ثنا أحمد بن عبد الله بن حرام ثنا اسماعيل بن حرام ثنا المظفر بن منهل ثنا موسى بن عيسى بن المنذر الحمصي ثنا أبي ثنا اسماعيل بن عياش عن أبي حنيفة عن واثلة بن الأسقع أن رسول الله ﷺ قال : دع ما يريبك إلى ما لا يريبك . وبه عن واثلة عن النبي ﷺ قال : لا تظهر الشمائة لأخيك فيعافيه الله ويبتليك .
أقول : الحديث الأول : متنه صحيح ورد من رواية جمع من الصحابة وقد صححه الترمذي وابن حبان والحاكم والضياء من حديث الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه . والحديث الثاني: أخرجه الترمذي من وجه آخر عن واثلة وحسنه وله شاهد من حديث ابن عباس. (تبييض الصحيفة بمناقب ابي حنيفۃ ۳۶-۳۷،ذكر من ادركه من الصحابه رضي الله عنهم ، دار الكتب العلميه بيروت)
سوال : کیا دکان کا بیمہ کرانا جائز ھے؟
لجواب وبالله التوفیق-
واضح رہے کہ لائف انشورنس کے مقابلے میں املاک کے انشورنس میں سود بالکل نہیں ہوتا اس لیے کہ جمع کی جانے والی رقم میں سے کوئی رقم مدت پر واپس نہیں ملتی ہے، اور نہ ہی اس پر اضافہ ملتا ہے، البتہ صرف شبہ قمار ہے کہ اگر خدانخواستہ ہلاک ہو جائے گا تو پورے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے، اور عموم بلویٰ اور حالات کے تقاضے کی وجہ سے شبہِ قمار کی خرابی برداشت کر کے اموال کے بیما کی گنجائش قرار دی گیٔ ہے فقط – والله أعلم باالصواب(فتاویٰ قاسمیہ ٤٧٢/٢٠)
1 thought on “١.سوال:بینک سے لون لیکر کاروبار کرنا جاٸز ہے؟”