سوال:- بخاری شریف کی کتاب الآذان میں روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ ایک مسجد میں پہنچے اس میں جماعت ہو چکی تھی تو انہوں نے اذان و اقامت کے ساتھ دوسری جماعت قائم کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی مسجد میں دو جماعت کرنا جائز ہے تو حنیفہ کی طرف سے اس روایت کا کیا جواب ہوگا؟ روایت نقل کر کے جواب تحریر فرمائیے؟

الجواب:-صورت مسئولہ میں مذکور اعتراض کے متعدد جوابات دیے گئے ہیں(1) حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ جس مسجد میں جماعت ثانیہ مع اذان و اقامت کے فرمائی تھی وہ راستے کی مسجد تھی اور راستے کے مسجد میں گئے تھے (2) اس مسجد کا امام متعین نہیں تھا-

وكان الأسود إذا فاتته الجماعة ذهب إلى المسجد آخر و جاء انس بن مالك إلى مسجد قد صلى فيه فاذن و اقام وصلى جماعة(بخاري شريف: ٨٩/١)

و اجاب امام العصر انورشاه الكشميري رحمه الله في فيض الباري وانسيا رضي الله عنه بترك التقدم عليهم على أنه لم يجمع في مسجد محلته وانما جاء في مسجد بني الزريق وجمع بهم فيه ومسئلة الجماعة الثانية فيما إذا جمع أهل المحلة في مسجدهم ثانيا (وقال في الفتح في مسجد بني ثعلبة، فتح الباري:١٥٦/٢) (فيض الباري على صحيح البخاري:٢٤٥/٢)

قال بعضهم: انما كره ذلك خشة افتراق الكلمة وان أهل البدع يتطرفون إلى مخالفة الجماعة وقال مالك والشافعي إذا كان المسجد على طريق الإمام له أن يجمع فيه قوم بعد قوم وحاصل مذهب الشافعي أنه لا يكره في المسجد المطروق وكذا غيره(عمدة القاري:١٦٥/٥،دار الكفر)

Leave a Comment