سوال:-باغات کی فروختگی کی متا دلی شکل کیا ہے؟

الجواب:-اگر پھول اور پھل آنے سے پہلے باغ فروخت کیا جائے جیسا کہ ہمارے ہندوستان کے اکثر علاقوں میں ہوتا ہے تو اس طرح باغ کے پھلوں کو فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے اس لیے کہ جانبین میں سے ہر ایک کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ اصل عقد اس پھل پر ہو رہا ہے جس کے پیدا ہونے کی امید ہے اور ایسی مبیع کا وجود لازم اور شرط ہے: اس لیے ناجائز اور بیع فاسد ہو جاتی ہے بلا البتہ اس کی متا دلی شکل یہ ہو سکتی ہے کہ زمین مع پیڑوں کے ایک سال یا دو سال کے لیے کرایہ پر دے دے پھر اس درمیان باغ کی زمین میں سبزی وغیرہ کوئی بھی چیز بو دے اور پیڑوں کی بھی خدمت کرتا رہے تو ایسی صورت میں کھیتی اور باغ کے پھل سب خریدار کے لیے جائز ہو جائیں گے-

عن جابر بن عبد الله رضي الله تعالى عنه قال نهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها....(صحيح البخاري:٢٠١/١،كتاب الزكوة،باب من باغ ثماره او نخله،رقم: ١٤٦٥)

ومن استاجر أيضاً على ان يكر بها و يزرعها ويستيها فهو جائز(هداية:٣٠٦/٣،باب الاجارة الفاسدة،اشرفية ديوبند ؛البحر الرائق: ١٨/٨،زكريا ديوبند)

وفي القنية: استاجر أيضاً سنة على أن يزرع فيها ما شاء فله أن يزرع فيها زرعين ربيعا وخريفا(البحر الرائق: ١٨/٨،باب وما يجوز من الاجارة وما يكون خلافا فيها،زكريا ديوبند)

Leave a Comment