الجواب:-چونکہ سودی کاروبار کرنا حرام ہے لہذا اس کے ذریعہ حاصل ہونے والے امدانی بھی حرام ہوگا کیونکہ اگرچہ حلال کاروبار کیا جائے تب بھی اس میں حرمت و خیاثت بدکتور برقرار رہے گی البتہ ایسی حرام کمائی سے کاروبار کرنا جس کا تعلق شخص معاملات سے ہو مثلا غصب یا رشوت وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے مال سے کاروبار کیا جائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اصل رقم مالک تک پہنچائے اور اس کے ذریعہ جو کاروبار کیا ہے اس کا امدانی جائز ہے اور اگر مالک کا علم نہ ہو تو اس کی طرف سے فقراء مساکین پر وہ رقم صدقہ کر دی جائے-
والحاصل انه ان علم ارباب الاموال وجب رده عليهم والا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه....(شامي: ٣٠١/٧،كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما،زكريا ديوبند)
قال شيخنا: ويستفاد من كتب فقهائنا كالهداية وغيرها ان من ملك بملك خبيث ولم يمكنه الرد الى المالك فسبيله والتصدق على الفقراء..... قال: ان المتصدق....(معارف السنن: ٣٤/١،باب ما جاء لا تقبل صلاة بغير طهور سعيد)
يا ايها الذين امنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا ان كنتم مؤمنين فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من الله ورسوله....الخ(سورة البقرة:٢٧٨-٢٧٩)