سوال:-اگر کوئی شخص کسی دوکان سے ادھار سامان خریدے اور قیمت ادا کرنے کی مدت طے نہ کرے بلکہ یوں کہے کہ بعد میں دونگا تو ایسی صورت میں شرعا یہ درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے؟

الجواب:-ادھار بیع کے اندر ثمن کی ادائیگی کی مدت معلوم ہونا ضروری ہے خواہ صراحتا معلوم ہو یا عرفا معلوم ہو لہذا صورت مسئولہ میں بیع درست ہے اگر متعاقدین کے درمیان مدت ادائیگی معلوم ہو ورنہ درست نہیں ہے-

ومن باع بثمن حال ثم اجله اجلا معلوما او مجهولا متقاربا كالحصاد والدياس.... لو باع موجلا ولم يقل الى رمضان لا يكون مؤبدا بل يكون ثلاثة ايام عند بعض ويفتى بأن يتاجل الى شهر.....(البحر الرائق: ٤٦٧/٥،كتاب البيع، المكتبة التهانوية ديوبند)

وصفه بثمن حاله وهو الاصل ومؤجل الى معلوم لئلا يقضي.... ولو باع مؤجلا صرف لشهر به يفتى....(رد المختار: ٥٢/٧-٥٣،كتاب البيوع،زكريا ديوبند)

وفي المنح: لو باع مؤجلا انصرف الى شهر لأنه المعهود في الشرع في السلم....(مجمع الانهر: ١٣/٣،كتاب البيوع، فقهية الامة ديوبند)

Leave a Comment