الجواب:-استنجا کے اندر ہمارے نزدیک کوئی عدد متعین نہیں ہے بلکہ مقصود صاف کرنا ہے لیکن امام شافعی کے نزدیک تین کا عدد ہونا ضروری ہے ان کے دلیل حضرت سلمان کی روایت ہے یعنی ہم میں سے کوئی تین پتھروں سے کم سے استنجا نہ کرے اور ہمارے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک طویل حدیث ہے جو شخص پتھر سے استنجا کرے اس کو چاہیے کہ طاق عدد اختیار کرے جس نےکیا بہتر ہے اور جس نے نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں ان کے دلیل کا جواب یہ ہے حدیث میں صیغہ امر آیا ہے ،وہ استحباب پر محمول ہے کیونکہ عام طور سے تین پتھروں سے صفائی ہو جاتی ہے یہ مطلب نہیں کہ تین پتھر واجب ہے اور صحیح قول امام صاحب رحمہ اللہ کے ہے