کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کی سزا ہے؟ اسی طرح نیکی کا بھی یہی معاملہ ہے ؟ مدلل رہنمائی فرمائیں

الجواب وبالله التوفیق: ایک گناہ دوسرے گناہ کی سزا ہے یہ تعبیر اختیار کرنا تو مناسب نہیں البتہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گناہ بعض اوقات دوسرے گناہ کا سبب بنتا ہے اور انسان کو برے انجام تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح نیکی بھی دوسرے نیک کاموں کا ذریعہ اور وسیلہ بنتی ہے اور انسان باری تعالیٰ کے مقرب بندوں میں شامل ہوجاتا ہے جیساکہ بیشتر نصوص شرعیہ سے اسکی تائید ہوتی ہے۔

قال الله تبارك وتعالى فلما زاغوا ازاغ الله قلوبهم والله لا يهدي القوم الفاسقين / سورة الصف/ رقم الاية ١٤/

عن عبد الله قال.. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عليكم بالصدق فان الصدق يهدي الى البر وان البر يهدي الى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا واياكم والكذب فان الكذب يهدي الى الفجور وان الفجور يهدي الى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا.../مسلم شريف /كتاب البر والصلة والاداب/باب قبح الكذب وحسن الصدق وفضله/رقم الحديث ٢٦٠٧

عن ابي هريره. عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال... ان العبد اذا اخطأ خطيئة نكتت في قلبه نكتة سوداء فاذا هو نزع واستغفر وتاب سقل قلبه وان عاد زيد فيها حتى تعلو قلبه وهو الران الذي ذكر الله كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون../ترمزي شريف/ابواب تفسير القران عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/باب ومن سوره ويل للمطففين/رقم الحديث /٣٣٣٤/ فقط والله تعالى اعلم بالصواب

ایک شخص موبائل کی کمپنی کا مالک ہے اور اس کی ماتحتی میں مزدور کام کرتے ہیں اور کمپنی کا قانون یہ ہے اگر کوئی مزدور ایک دن کی بھی چھٹی کرتا ہے تو کمپنی ٥٠٠ روپیے کاٹ لیتی ہے جبکہ اسکی مزدوری ایک دن کی ٤٨٤ بیٹھتے ہیں، اور اسی طرح اگر کوئی مزدور دس دن کام کرکے چھوڑ دیتا ہے تو کمپنی اس کو دس دن کی مزدوری نہیں دیتی تاکہ مزدور چھٹی نہ کرے تو کیا اس طرح کا عمل جائز ہے یا نہیں ؟؟

الجواب وباللّه التوفيق= ١- واضح رہے کہ کویٔ بھی کمپنی اپنے مزدور کو جو تنخواہ دیتی ہے وہ در حقیقت مزدوری کی اجرت دیتی ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص کمپنی میں چھٹی کرتا ہے تو مالک کو شرعاً یہ اختیار ہیکہ وہ أیام غیر حاضری کی تنخواہ کاٹ لے، لیکن مالک کے لیے یہ درست نہیں ہے کہ وہ غیر حاضری پر اتنی زیادہ تنخواہ کاٹے جس سے مزدور کو حرج ہو، یہ ظلم ہے، ٢- مالک کے لیے یہ ہرگز جایز نہیں ہے کہ وہ صرف بغرض خود مزدور کی دس یوم کی تنخواہ نہ دے، یہ عمل شرعاً و اخلاقاً درست نہیں ہے، قرآن و احادیث نے اس کی سخت مذمت کی ہے، بروز قیامت یہ روکی ہویٔ تنخواہ اعمالِ صالحہ کے ذریعہ ادا کرنا ہوگی- لھذا مالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان تمام مزدور کی تنخواہ لوٹا دے جس – جس کی تنخواہ اب تک نہیں دی ہے، اور کمپنی کو نقصان سے بچانے کے لیے جایز و عدل وانصاف پر مبنی قانون بناییں،۔ نیز أیام غیر حاضری کی جو تنخواہ ہے صرف وہی کاٹے، اور مزدوروں کے ساتھ آسانی وحسنِ سلوک کرے؛ فقط والّله سبحانه وتعالى أعلم بالصّواب

قال اللّه تعالى:وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ( سورۃ الأعراف : ٨٥)

عن عبدالله بن عمر قال: قال رسول الله صلى عليه وسلم: أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقه. (سنن ابن ماجة/كتاب الرهون/باب أجر الأجراء، ٨١٧/١، رقم الحديث: ٢٤٤٣، ط: بيروت)

Leave a Comment