١.سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کیا حدیث میں دوسرے کے برے عمل سے بیزاری کی کوئی دعا مذکور ہے ؟؟ اگر کوئی دعاء ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

لجواب و باللہ التوفیق
کسی کے عمل سے بیزاری کا اظہار کرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا ثابت ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ فُلَانُ .
(صحیح بخاری ۹۳۸/۲، كتاب الدعوات، باب رفع الايدي في الدعاء، رقم:۶۳۴۱)
ترجمہ : اے اللہ ! میں تیری بارگاہ میں فلاں کے عمل سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔

نوٹ : فلاں کی جگہ جس کے عمل سے براءت کی جارہی ہے ، اس کا نام لیا جائے۔
فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

ہمارے معاشرے میں اور خواص میں بھی جب جمائی لیتے ہیں تو جمائی لیتے وقت لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے ہیں تو کیا یہ پڑھنا کہیں سے ثابت ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
جمائی آتے وقت حدیث میں حتی الامکان منہ کو بند رکھنے کا حکم ہے لیکن خاص اس وقت لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنا کسی روایت میں ثابت نہیں ہے۔
(مستفاد: نخبۃ المسائل ۲۹۴/۴)

عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله ص عليه وسلم: إذا تثائب أحدكم فليمسك بيده على فمه فإن الشيطان يدخل. (صحيح مسلم، كتاب الزهد والرقائق / باب تشميت العاطس وكراهية التثاؤب ٤١٣/٢ رقم: ٢٩٩٥ المكتبة الأشرفية ديوبند) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلے ذیل کے بارے میں ہم نے اپنے علماء کرام سے سنا ہے کہ عورتوں کو جنت میں ان کے شوہر ملیں گے تو اگر کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور بیوی دوسری جگہ نکاح کر لے تو اس عورت کو کون سا شوہر ملے گا ۔

الجواب و باللہ التوفیق :
اس کے متعلق حضرات علماء کرام کے دو قول ہیں: ایک یہ ہے کہ اخیر شوہر کو ملے گی، دوسرا یہ ہے کہ اس کو اختیار دیا جائے گا جس کو چاہے پسند کر لے، اور بعض علماء کرام نے فرمایا کہ جس شوہر نے زندگی میں اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوگا اس کو ملے گی۔
(فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۶۹۱/۱ )

اختلف الناس فى المرأة إذا كان لها زوجان فى الدنيا لأيهما تكون في الآخرة؟ قال بعضهم : تكون لأخرهما، وقال بعضهم: تخير ، فتختار أيهما شاءت، وقدجاء في الأثر ما يؤيد قول كلا الفريقين: أما من قال : هي لآخر هما فقد ذهب إلى ماروى عن معاوية ابن أبي سفيان أنه خطب أم الدرداء، فأتت وقالت: سمعت أبا الدرداء يحدث عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنه قال : المرأة لآخر زوجها في الآخرة وقال (أي أبو الدرداء): إني أردتتكون زوجتي في الآخرة، فلا تتزوجى بعدى. وأما من قال بأنها تخير، فذهب إلى ماروى عن أم حبيبة رضى الله تعالى عنها زوج النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنها سألت النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فقالت: يارسول الله ! المرأة منا ربما يكون لها زوجان، لأيهما تكون في الآخرة ؟ قال : " تخير فتختار أحسنهما خلقاً معها ثم قال صلى الله تعالى عليه وسلم: "ذهب حسن الخلق بخيرى الدنيا والآخرة الخ. (بستان فقيه بالليث السمر قندي رحمه الله ٢٤٨،باب اذا كان لها زوجان، مطبع فاروق دهلي، وكذا في احكام النساء ٤١١،الباب السابع بعد المأة في ذكر رد المرأة الى زوجها في الجنه اذا لم تتزوج بعده، وزاره الاوقاف والشؤون الاسلامية، قطر بحوالہ فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۶۹۲/۱ ) فقط والله سبحانہ و تعالی اعلم.

سردی کے موسم میں لحاف وغیرہ ناپاک ہوجائے تو صرف تر کپڑے سے پوچھ دینے سے پاک ہوجائے گا ؟ واضح رہے کہ اگر دھل دیا جاۓ تو خشک ہونے میں وقت لگتا ھو؟

الجواب و باللہ التوفیق:
لحاف میں چونکہ نجاست کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو اس پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ ٹیکنا بند ہو جائے ، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑ نا ضروری نہیں ہے جیسا کہ ایسا ہی ہوتا ہے ، لیکن محض پوچھنے سے پاک نہیں ہوگا۔ اور اگر بار بار ناپاک ہونے کا خدشہ ہے تو لحالحاف کے نیچے چادر لگا لی جائے اس کی وجہ سے لحاف ناپاک نہیں ہوگا۔

وقدر بغسل و عصر ثلاثاً فيما ينعصر و بتثليث جفاف أي انقطاع تقاطر في غيره أي غير منعصر ( تنوير مع الدر ) وقال الشامي : قوله أي غير منعصر أي بأن تعذر عصرہ کا لحذف أو لعسر کا لبياظ أفاده في شرح المنية ( در مختار مع الشامی : ۵۴۱/۱ کتاب الطهارة، باب الانجاس، مطلب في حكم الوشم ، زکریا)

و ما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات، والتجفيف في كل مرة لأن للتجفيف أثراً في استخراج النجاسة، وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس. الفتاوی الہندیۃ القدیمۃ۴۲/۱، کتاب الطہارۃ ، الباب السابع في النجاسة، الفصل الأول في تطهير الانجاس)

قوله وبتثليث الجفاف فيما لا ينعصر اى ما لا ينعصر فطهارته غسله ثلاثا وتجفيفه في كل مرة لان للتجفيف اثراً في استخراج النجاسة وهو ان يتركه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس . (البحر الرائق: ۲۳۸/۱، کوئٹہ) فقط اللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔

ایک شخص کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا بیوی میکے چلی گئی بیوی اور اس کے گھر والے طلاق کا مطالبہ کر رہی تھے جبکہ شوہر طلاق دینا نہیں چاہ رہا تھا بالآخر دونوں جانب سے پنچایت بیٹھی اور طلاق نامہ لکھا گیا وکیل نے شوہر کے اور گواہوں کے بھی دستخط کرائے شوہر نے زبردستی فور میلٹی پوری کرنے کے لیے طلاق نامے پر دستخط کیے مگر شوہر راضی نہیں تھا لیکن وکیل نے دستخط کرانے کے ساتھ ساتھ زبانی بھی شوہر سے اس تحریر کو پڑھوایا، تو کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ شوہر نے بخوشی دستخط نہیں کیے بلکہ اپنے آپ کو پریشانیوں سے بچانے کے لیے دستخط کیے ہیں لیکن بعد میں تحریر پڑھی ہے۔ برائے کرم جلد از جلد جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔

الجواب وباللہ التوفیق:
سوالنامہ سے واضح ہے کہ صورت مسئولہ میں شوہر نے جو طلاق نامے پر دستخط کیے ہیں وہ بدرجہ مجبوری اور اکراہ کی صورت میں کیے ہیں اور اکراہ کی صورت میں دستخط کرنے سے بیوی کے اوپر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے جیسا کہ شامی کی عبارت سے واضح ہے ہوتی ہے۔
قال الشامي وفي البحر : أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته، فكتب لا تطلق.
(الدر مع الرد:۴۴۰/۴ كتاب الطلاق ، مطلب في الاكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق زکریا )
نیز اس نے جو تحریر بعد میں اپنی زبان سے پڑھی ہے تو اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اس لیے کہ یہاں پر اس کا مقصود طلاق دینا نہیں تھا بلکہ صرف تحریر کی نقل و حکایت مقصودتھی جیسا کہ سوال نامہ سے واضح ہے۔ اور اشباہ کی عبارت سے واضح ہے۔
(مستفاد:چند اہم عصری مسائل۲۵۶/۱)

ولو كتبت امرأتي طالق ، أو أنت طالق وقالت له اقرأ على فقرأ عليها لم يقع عليها لعدم قصده باللفظ (الأشباه والنظائر ۸۸/۱، القاعدة الاولى :لا ثواب الا بالنية، المكتبه اليوسفيه ديوبند الهند) فقط والله سبحانه وتعالى اعلم۔

1 thought on “١.سوال:کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: کیا حدیث میں دوسرے کے برے عمل سے بیزاری کی کوئی دعا مذکور ہے ؟؟ اگر کوئی دعاء ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔”

Leave a Comment