٢٣.سوال:-اگر کوئی شخص سو رہا ہو تو نماز کے وقت اسے بیدار کرنا ضروری ہے یا نہی ؟نیز سونے والا شخص اگر بیدار ہوکر طلوع شمس کے وقت فجر پڑھنے لگے یا غروب کے وقت نماز پڑھنے لگے تو اسے نماز پڑھنے سے منع کیا جاےگا یا نہیں؟

الجواب و باللہ توفیق :-اگر وقت سے پہلے سو رہا ہو تو اسے بیدار کرنا ضروری نہی اس لئے کہ خود سونے والے پر بیدار ہونا لازم نہی اور اگر سوتے ہوئے وقت نکال جائے تو گناہ گار نہی ہوگا البتہ اگر وقت داخل ہونے کے بعد سو رہا ہو تو بیدار  کرنا لازم ہے تا کہ قضاء کرنے کے گناہ سے بچ سکے البتہ بہتر یہی ہے کہ دونوں سورتوں میں بیدار کر دیا جائے تا کہ سونے والوں کو پورا ثواب مل سکے ،طلوع شمس کے وقت یا غروب  کے وقت اگر عام آدمی کبھی کبھار نماز پڑھے تو اس کو منع نہی کیا جاےگا اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر نماز ہی نہ پڑھے جس کی وجہ سے وہ ترک صلات کا مرتکب بن کر گناہ گار ہوگا جبکہ اس وقت نماز پڑھنے سے ائمہ ثلاث کے نزدیک اسکی نماز ہو جاےگی اور احناف کے بھی بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ان اوقات میں فرائض پڑھنا تو ممنوع ہے لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ادا ہو جاےگی اس لئے بالکل ترک کرنے کے مقابلے ادا کر لینا بہتر ہے –//شامی ج:٢،ص:١٣ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:١٠٨ زکریا –//محیط البرھانی ج:١،ص:٢٧٦ 

(۱) لا يجب انتباه النائم في أول الوقت ويجب إذا ضاق. قلت لكن فيه نظر لتصريحهم بأنه لا يجب الأداء على النائم اتفاقا فكيف يجب عليه الانتباه...... وسنذكر في الأيمان أنه لو حلف أنه ما أخر صلاة عن وقتها وقد نام فقضاها قيل لا يحنث واستظهر الباقاني لكن في البزازية: الصحيح أنه إن كان نام قبل دخول وانتبه بعده لا يحنث وإن كان نام بعد دخوله حنث فهذا يقتضي أنه بنومه قبل الوقت لا يكون مؤخرا وعليه فلا ياْثم وإذا لم ياثم لا يجب انتباهه. إذ لو وجب لكان مؤخرا لها وآثما. بخلاف ما إذا نام بعد دخول الوقت ويمكن حمل ما في البيري عليه......(الدر المختار مع الشامي) 2/13.ط زكريا

(۲) ثلاث ساعاة لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازه ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاب إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن تغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه أداؤه عند غروب....(الهندية الجديدة)1/108.ط زكريا (۳) المحيط البرهاني.1/276 .ط زكريا

Leave a Comment