١.سوال:-بینک یا کسی سے قرض لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟

جواب:-جب کسی کے پاس حج کرنے کے لیے حلال پیسہ موجود نہیں ہے تو شریعت نے سود پر قرض لے کر حج کو جائز پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ جب پیسہ وصول ہو جائے گا اس کے بعد آپ پر حج کو جانا لازم ہے مگر سودی قرض لے کر حج کرنا شرعا اجازت نہیں ہے کیونکہ بینک سود کے علاوہ قرض دے گا ہی نہیں۔فقط واللہ اعلم۔

رضي الله تعالى عنه قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل الربا، وموكله، وكاتبه وشاهديه،قال: هم سواء (مسلم شريف ،باب لعن اكل الربا،نسخة الهنديه:٢٧/٢)

ان هريرة رضي الله تعالى عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ايها الناس ان الله لا يقبل الاطيبا الحديث (صحي مسلم الزكاة،بابو قبول الصدقة من الكتاب الطيب وتربيتهما نسخة الهنديه:١٢٧/١ بيت الافكار رقم: ١٠١٥)

لا بمال حرام ولو حج به سقط عنه الفرض لكنه لا تقبل عنه حجته (غنية الناسك، قديم: ٨،جديد ٢١)

سوال:-چندہ لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟

جواب:-غریب کمزور لوگوں پر نہ حج فرض ہے نہ لازم اور نہ ہی اس کو حج میں بھیجنے کے لیے چندہ جمع کرنا شرعی طور پر جائز ہے یعنی چند کر کے حج کرنا شراب جائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم ۔

ولو وهب له مال لحج به قوله سواء كان الوهم ممن تعتبر منه كالاجانب اولا تعتبر كالابوين والمولودين(فتح القدير،كتاب الحج دار الفكر مصري قديم:٤١٠/٢)(زكريا ٤١٦/٢)

ولله على الناس حج البيت من استطاع اليه سبيلا ومن كفر فان الله غني عن العالمين (صوره ال عمران: ٩٧)

وقد اختلف في حج الفقير فقاله اصحابنا والشافعي: لا حج عليه (احكام القران ،باب فرض الحج:٢٥/٢)

سوال:-اگر کوئی شخص طواف زیارت کے بغیر وطن واپس آ جائے تو شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-اللہ حافظ زیارت حج کے دوسرا رکن ہے اسے ادا کیے بغیر حج مکمل نہیں ہوگا اور شریعت میں اس کا کوئی بدل نہیں لہذا جو شخص طواف زیارت نہیں کرے گا اس طرح کے ایام نحر شروع ہونے کے بعد کوئی طواف نہیں کیا تو جب تک خود جا کر طواف زیارت نہ کر لے اس کا طواف ادا نہیں ہوگا اور آخری عمر تک اس کی ادائیگی ذمہ میں قرض رہے گی اور جب تک طواف زیارت نہ کر لے اس وقت تک بیوی سے صحبت بوس و کنار اس کے لیے حرام ہے ہاں البتہ ایام نحر شروع ہونے کے بعد کوئی دوسرا طواف کیا تو یہ طواف طواف زیارت کے قائم مقام ہو جائے گا۔فقط واللہ اعلم ۔

وحل النساء اي : بعد الركن منه وهو منه .... ولو لم يطف اصلا لا يحل له النساء وان طلع ومضت سنون باجماع وكذا في الهنديه(شامي: ٦١٤/٣ طواف الزيارة اشرفيه ديوبند )

لو ترك طواف الزيارة كله او اكثر فهو محرم ابدا في حق النساء حتى يطوف فعليه حتما ان يعود لذلك الاحرام ويطوفه(غنية الناسك:٣٧٣)

سوال:-مال حرام سے حج کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست نہ ہو تو پھر بھی کوئی مال حرام سے حج کر لے تو اس کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا یا نہیں اگر ساقط ہو جائے تو وہ گنہگار ہوگا یا نہیں اور وہ حج مقبول ہوگا یا نہیں ؟نیز کوئی ایسی متبادل صورت ہے کہ جس سے حج مقبول بھی ہو جائے اور مال حرام کا ارتکاب بھی لازم نہ آ ے؟

جواب:-اگر مال حرم سے حج کرنا درست نہیں ہے پھر بھی کوئی مالے حرم سے حج کر لے تو اس کے ذمہ سے فرضیت ساقت ہو جائے گا لیکن گنہگار ہوگا کیونکہ مال حرام سے حج کرنا حرام ہے اور اس سے حج مقبول نہیں ہوتا ہے اور ثواب بھی نہیں ملتا ہے اس شخص کو چاہیے کہ کسی سے قرض لے کر حج کرنے جائے اور واپسی کے بعد جائز طریقے سے حلال روزی کما کر اس سے قرض ادا کرے تو حج مقبول بھی ہو جائے گا اور گناہ کا ارتکاب بھی نہ ہوگا البتہ اگر مال حرام سے حج کر لیا تو بعد میں توبہ کر لے اور اگر کسی کا حق لے رکھا ہو تو اس کو واپس کر دے۔فقط واللہ اعلم ۔

قوله: الحج بمال حرام...... بالحج رياء وسمعة ان الحج نفسه الذي هو زيارة مكان مخصوص الى الآخ.. ليس حرام ويل الحرام هو انفاق اطال الحرام ولا تلازم بينهما ..... مع انه يسقط الفرض عنه معها .....فلا يثاب لعدم القبول(شامي: ٥١٩/٣ اشرفيه دوبند)

ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فانه حلال وانه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع انه يسقط الفرض عنه مع ولا تنافي بين سقوطه وعدم قبوله ولا يثاب لعدم القبول ولا يعاقب ترك الحج(شامي: ٤٥٣/٣ زكريا ديوبند)

من حج بمال حرام فقال: لبيك اللهم لبيك،قال الله عز وجل لا لبيك ولا سعديك(كنز العمال:٢٧/٥ كتاب الحج)

1 thought on “١.سوال:-بینک یا کسی سے قرض لے کر حج کرنا شرعا کیسا ہے؟”

Leave a Comment