(3)نماز کی مسائل
نماز
الجواب و باللہ التوفیق:-فضر کی نماز کے بعد سورج نکالنے سے پہلے قضاء نماز پڑھنا جائز ہے ،اور اسی طرح جب تک سورج میں زردی آجاے اس وقت تک عصر کی نماز کے بعد قضاء نماز پڑھنا جائز نہیں ہے –//الہندیہ ج:١،ص:١٩ زکریا –//بحر الرائق ج:١،ص:٤٣٧ زکریا –//شامی ج:١:٢،ص:٧٧ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر جنازہ پہلے سے ہی طیار تھا تو طلوع ،غروب اور زوال کے وقت نماز جنازہ پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور اگر اسی وقت طیار ہوا تو کوئی کراہت نہی اسی وقت جنازہ پڑھ سکتے ہیں –//در المختار ج:٢،ص:٤٢ اشرفیہ –//الہندیہ ج:١،ص:١٠٩ زکریا –//الترمزی
الجواب و باللہ التوفیق :-جہاں چھ مہینہ دن اور چھ مہینہ رات ہوتی ہو وہاں اوقات کا اندازہ کر کے نمازیں پڑھی جاےگی یعنی ٢٤ گھنٹے میں ٥ نمازیں معتاد فرق کے ساتھ پوری کی جاےگی اسی طرح جہاں عشاء کا وقت پاتا ہی نہ چلتا ہو وہاں عشاء کی نماز ادا کرنا ضروری ہے اسکو ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ عام دنوں میں مغرب کے بعد جتنے فاصلے سے عشاء کی نماز پڑھی جاتی ہے اتنی فاصلے سے ادا کی جائے یا اطراف کے شہروں اور ملکوں میں جس وقت عشاء پڑھی جاتی ہے اس کے مطابق ادا کی جائے –//در المختار ج:٢ ص:٢٤ اشرفیہ –//البخاری ج:١،ص:٣٣٥ –//مسلم ج:١،ص:٢٩٣
الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ صورت میں دس منٹ تاخیر سے نماز پڑھنا درست ہے ،صرف ماہ رمضان کے اندر –//در المختار ج:١،ص:٣٣-٣٤ اشرفیہ –//التاتارخانیہ ج:٢،
ص:١١،زکریا –//
الجواب و باللہ التوفیق :-آذان بوضوء دینا مستحب ہے لیکن اگر بغىر وضوء کے آذان دے دی تو گنجائش ہے اور بلا وضوء اقامت کہنا بحر حال مکروہ ہے ،اسی طرح اگر کوئی وقت سے پہلے آذان دے دی تو وقت کے بعد اعادہ ضروری ہے –//الہندیہ ج:١،ص:١١٠ زکریا –//بداءع،ج:١،ص:٢٧٤ زکریا –//الہدایہ ج:١،ص:٨٩ فیصل
الجواب و بالله التوفیق :-آذان دیتے وقت کانوں میں انگلی ڈالنا مستحب ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے آواز بلند ہو کر نکالتی ہے –//الہندیہ ج:١،ص:٥٦ اشرفیہ –//التاتارخانیہ ج:١،ص:١٤١،زکریا –//الھدایہ ج:١،ص:٨٧ فیصل
الجواب و باللہ التوفیق :-ایک شخص کا دو مسجدوں میں آذان پڑھنا مکروہ ہے ،لیکن اگر ضرورت ہو تو دے سکتا ہے ،–//التاتارخانیہ ج:٢،ص:١٤٦ زکریا –//بداءع ،ج:١،ص:١٤٩ زکریا –//در المختار ج:٢،ص:٦٥ بیروت
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر آذان اور اقامت کے بعد فوران یاد آجاے تو جو کلمہ چھوٹ گیا ہے وہاں سے اعادہ کرے اور اگر کچھ دیر بعد یاد آیا تو شروع سے لوٹاے -//
الجواب و باللہ التوفیق:-قضاء نماز کی ادائیگی کے لئے آذان و اقامت کہنا مسنون ہے چاہے جماعت کے ساتھ پڑھی جائے یا اکیلے پڑھی جائے اور اگر بغىر آذان و اقامت کے قضاء نماز پڑھ لی تو بھی نماز ہو جاےگی –//الہندیہ ج:١،ص:١١١ زکریا –//در المختار ج:١،ص:٦٠ اشرفیہ –//الہدایہ ج:١،ص:٨٨ فیصل
الجواب و باللہ التوفیق :-جس طرح آذان میں چھرہ دونوں طرف پھیرا جاتا ہے اسی طرح اقامت میں بھی پھیرنا چاہیے –//در المختار ج:١،ص:٦٦ اشرفیہ -//الہندیہ ج:١ ص:١١٢ زکریا –/قدوری ج:١،ص:٣٠ دار العشاعت
الجواب و باللہ التوفیق:-حدود مسجد کے اندر کہیں بھی تکبیر کہی جا سکتی ہے اندر ،بہار داہیں ،بایں ہر جگہ درست ہے البتہ اگر مصلّی کم ہو تو اور صف اول میں تکبیر کہنے سے سب کو آواز پہنچتی ہو تو اقامت صف اول میں کہنا بہتر ہے اور اگر صف اول میں کہنے سے سب کو آواز نہ پہنچتی ہو تو درمیان صف میں تکبیر کہنے سے کوئی حرض نہی –//الہندیہ ج:٢،ص:١١٢ زکریا –//شامی ج:٢،ص:٤٨ زکریا –//تبین الحقائق ج:١،ص:٩٢ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق:-آذان سننے والا اگر تلاوت یا نماز یا تقریر یا تعلیم میں مشغول نہ ہو تو اس پر آذان کا جواب دینا واجب ہے نیز جو شخص گھر پر بیٹھ کر آذان سن رہا ہے اس پر بھی جواب واجب ہے –//التاتارخانیہ ج:١،ص:٥٧ زکریا–//بحر الرائق ج:١،ص:٤٥١ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:١١٤ زکریا –//شامی ج:٢،ص:٨٥ اشرفیہ
الجواب و باللہ التوفیق :-تکبیر تحریمہ کے لئے قیام فرض ہے لیکن اس قیام کی کوئی مقدار متعین نہی لہٰذا اگر قیام کی حالت میں تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو جائے یا رکوع میں جاتے ہویے حالت قیام کے قریب تکبیر تحریمہ کہ دیا تو تکبیر تحریمہ اور نماز دونوں صحیح ہو جاےگا اور اگر تکبیر تحریمہ کہتے وقت رکوع کے زیادہ قریب تھا تو تکبیر تحریمہ اور نماز دونوں صحیح نہی ہوگا –//شامی ،ج:٢،ص:١٢٩-١٣٠ ،زکریا –//النندیا ج:١،ص:١٢٦ ،جدید ،زکریا –//بحر الرائق ج:١،ص:٥٠٨ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :اگر مسجد میں تلاوت کر رہا ہو تو تلاوت جاری رکھنی چاہیے یہی افضل ہے البتہ تلاوت موقوف کر ہے جواب دینے کا بھی اجازت ہے اور اگر گھر میں تلاوت کر رہا ہو اور اس کی مسجد کی آذان ہو رہا ہو تو تلاوت موقوف کر کے آذان کا ضواب دینا چاہیے اور اگر دوسرے مسزد کی آذان ہو تو تلاوت جاری رکھنی چاہیے ،—آذان کے وقت بیت الخلا جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر سخت تقاضا ہو تو جانے میں کوئی حرض نہی اس لئے کہ جماعت شروع ہو نے کے بعد سخت تقاضہ کے حالت میں بیت الخلا جانے کا حکم ہے تو آذان کے وقت بدرجہ اولى بیت الخلا جانے میں کوئی حرض نہی ،اور اگر معمولی تقاضہ ہو تو بیت الخلا نہی جانا چاہیے آذان کا ضواب دینا چاہیے –//التاتارخانیہ ج:٢،ص:١٥٤ زکریا –//شامی ج؛٢،ص:٦٨-٦٩ زکریا –//
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر امام پہلے سے ہی مصلے کے قریب ہو تو بہتر ہے کہ شروع اقامت سے کھڑے ہو کر صف سیدھے کرنے میں مشگول ہو جائے اور اگر شروع اقامت میں کوئی کھڑا نہ ہو تو اس کی بھی اجازت ہے البتہ حى على الفلاح تک کھڑا ہو ہی لانا چاہیے –//شامی ج:٢،ص:١٧٧ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:١٤ جدید –//ج:١ ،ص:٥٧ قدیم ،زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-اگر گھر پہنچ کر مذکورہ فاسد نماز کو وقت کے اندر پڑھتا ہو تو اکمال کریگا اور اگر وقت کے بعد پڑھتا ہے تو قصر کریگا –//شامی ج:٢.ص:٢١٨ زکریا –//التاتارخانیہ ج:٢ ص:٥٢٣ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-قیام کی حالت میں ہاتھ ناندھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی باطنی حصّے کو بائیں ہاتھ کی ظاہری حصّے پر رکھے اور خنصر اور ابہام سے کلائی کو پکڑے باقی انگلیوں کو کلائی پر اپنی حالت پر چھوڑ دے اسی طرح قعدے کے حالت میں انگلیا اپنی حالت پر رکھی جائے نیز سجھوں میں انگلیا سمٹ کر رکھی جائے –//الہندیہ ج:١،ص:١٣١ زکریا –//المحیط البرہانی ج:١ ص:٢٩١
الجواب و باللہ التوفیق:-اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکہ امام رکوع سے فارگ ہونے کے بعد رکوع کر کے امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو مقتدی کی وہ رکعت بالاتفاق شمار ہوگی یعنی مقتدی اس رکعت کو پانے والا ہوگا اس پر سجدہ سہو لازم نہ ہوگا –//شامی ج:٢،ص:٥١٦ زکریا –// بداءع،ج:١،ص:٥٦٢ زکریا –//البنایہ ج:٢،ص:٥٧٨ اشرفیہ
الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ صورت میں جب مسفیر تنہا نماز پڑھےگا تو قصر کریگا اور اگر نفل نماز کی اقتدہ کی تھی تو اکمال کریگا –//شامی ج:٢ ص:٦١٢ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:٢٢ زکریا التاتارخانیہ ج:٢،ص:٥١٤ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-مسبوق کا امام کے ساتھ سالام پھیرنے ککی تین سورتیں ہیں مسبوک یاتو امام کے ساتھ سلام پھیریگا یا امام کے ساتھ یا امام کے بعد پہلی دونوں سورتوں میں نماز ہو جاےگی جب اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر لے سجدہ سہو لازم نہ ہوگا اور تیسری صورت میں بھی نماز ہو جاےگی –/شامی ج:٢ ص: ٣٥٠ زکریا –//بحر الرائق ج:١،ص:٦٦٢ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-بالا عذر اس طرح نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور کراہت کے ساتھ پچھلی صف والوں کی نماز ہو جاےگی –//شامی ج:٢،ص:٣١٢ زکریا –//حاشیہ الطحطاوى ص:٣٦١-٣٦٢ –//مجمع الانھر ج:١،ص:١٨٨
الجواب و باللہ توفیق :-اگر وقت سے پہلے سو رہا ہو تو اسے بیدار کرنا ضروری نہی اس لئے کہ خود سونے والے پر بیدار ہونا لازم نہی اور اگر سوتے ہوئے وقت نکال جائے تو گناہ گار نہی ہوگا البتہ اگر وقت داخل ہونے کے بعد سو رہا ہو تو بیدار کرنا لازم ہے تا کہ قضاء کرنے کے گناہ سے بچ سکے البتہ بہتر یہی ہے کہ دونوں سورتوں میں بیدار کر دیا جائے تا کہ سونے والوں کو پورا ثواب مل سکے ،طلوع شمس کے وقت یا غروب کے وقت اگر عام آدمی کبھی کبھار نماز پڑھے تو اس کو منع نہی کیا جاےگا اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر نماز ہی نہ پڑھے جس کی وجہ سے وہ ترک صلات کا مرتکب بن کر گناہ گار ہوگا جبکہ اس وقت نماز پڑھنے سے ائمہ ثلاث کے نزدیک اسکی نماز ہو جاےگی اور احناف کے بھی بعض مشائخ نے لکھا ہے کہ ان اوقات میں فرائض پڑھنا تو ممنوع ہے لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ادا ہو جاےگی اس لئے بالکل ترک کرنے کے مقابلے ادا کر لینا بہتر ہے –//شامی ج:٢،ص:١٣ زکریا –//الہندیہ ج:١،ص:١٠٨ زکریا –//محیط البرھانی ج:١،ص:٢٧٦
الجواب و باللہ التوفیق :-مذکورہ صورت میں امام اگر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا۔ ہو جائے تو مقتدی امام کے ساتھ کھڑا نہی ہونگے بلکہ مقتدی بیٹھے بیٹھے امام کو لقمہ دینگے پھر بھی اگر امام صاحب نہ لوٹے تو مقتدی امام کا انتظار کرینگے اگر امام پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ تو مقتدی سلام پھیرنے میں امام کا انتظار کریگا اور اگر امام پاچنویں رکعت کا سجدہ مکمل کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیرے گا اور اس صورت میں مسبوق کو امام کے اقتدہ نہی کرنا چاہیے بلکہ مسبوق اپنے نماز پورے کرنے میں لگ جائے اگر مسبوق امام کی اقتدا کی تو نماز فصید ہو جائے گی اس لئے کہ اسنے ایسی حالت میں امام کی اقتدا کی جب اسے تنہا نماز پڑھنی چاہیے تھی البتہ اگر امام قعدہ اخیر نہی کیا بلکہ سیدھے پاچنویں رکعت کے لیتے کھڑا ہو گیا تو امام کو لقمہ دیا جاےگا اگر لقمہ دینے کے باوجود نہ لوٹے تو سبھی لوگ امام کے ساتھ کھڑے ہو جاینگے اب اگر پانچوے رکعت کے سجدے سے پہلے امام قعدہ کی طرف لوٹ آئے تو سبھی لوگ امام کے ساتھ قعدہ کرینگے اور امام سلام پھیرنے کے بعد مسبوق اپنے نماز پورا کریگا اور اگر امام پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو سبھی کا فرض باطل ہو جائے گا اور یہ نماز سبھی کے حق میں نفل بن جاےگا –//شامی ج:٢،ص:٥٥٣ ،٣٥٠ زکریا
الجواب و باللہ التوفیق :-حنفی شخص اپنے مذھب پر عمل کتے ہویے شوافع کی امامت کر سکتا ہے علماء شافعیہ نے شوافع کے لئے حنفی امام کی اقتدا کی اجازت دی ہے شوافع کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے نماز پڑنے کی اجازت نہیں ،اس لئے کہ بعض صورت میں امام صاحب کے مذھب کے مطابق اس کی نماز فاسد ہو جاےگی یا کراہت کے ساتھ ادا ہوگی اس لئے شوافع کی مذھب عمل کرنے کی اجازت نہیں البتہ صرف سنن و نوافل میں شوافع کے مذھب پر عمل کرے اور فرائض و واجبات نیز مفسدات صلاةکے سلسلے میں مذھب احناف پر عمل کرے تو اسکی اجازت ہے –//حاشیہ الطحطاوى ،ج:١،ص؛٢٩٤
الجواب و باللہ التوفیق :-مسافر کے لئے عصر کی نماز مثل اول کے بعد پڑنے کی گنجائش ہے اس لئے کہ امام صاحب کے قول کے مطابق مثل اول کے بعد سے عصر کا وقت شروع ہوتا ہے اسی طرح عشاء کی نماز شفق احمر کے بعد پڑھنے سے صحیح ہو جاتی ہے خلاصہ یہ ہے کہ دونوں وقت کے بارے میں جو امام صحاب اور صاحبین اور دیگر ائمہ کے درمیان اختلاف ہے وہ صرف احتیاط کا ہے جائز یا ناجائز ہنے میں نہیں ہے -//شامی ج:٢ ص:١٤ -١٥ زکریا –//الہندیہ ج:١ ص :١٨ زکریا

