الجواب وباللہ التوفیق
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص ٦ تولہ سونا اور دونوں چاندی کی انگوٹھیوں کی قیمت ایک ساتھ جوڑ لے ، چنانچہ یہ مجموعی قیمت اگر آج کے زمانہ میں چاندی کے نصاب (٦١٢ گرام ٣٦٠ ملی گرام) کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہوجائے گی،
کذا فی الدر المختار يُضَمُّ (الذَّهَبُ إلَى الْفِضَّةِ) وَعَكْسُهُ بِجَامِعِ الثَّمَنِيَّةِ (قِيمَةً) کذا فی الشامیہ أَيْ مِنْ جِهَةِ الْقِيمَةِ، فَمَنْ لَهُ مِائَةُ دِرْهَمٍ وَخَمْسَةُ مَثَاقِيلَ قِيمَتُهَا مِائَةٌ عَلَيْهِ زَكَاتُهَا (رد المحتار/ باب زكاة المال/ ٢٣٤/٣،ط: زكريا) كتبه: محمد انس اختر قاسمی ہردوئی
ردوئی سے بریلی ١٠٠ کلو میٹر سے اوپر ہے ہردوئی کا رہنے والا بریلی سے واپسی کررہاہے ظہر کی نماز پڑھ کر ٢ بجے بریلی سے روانہ ہوا اور رات میں ٩ بجے ہردوئی پہنچا تو اب اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے عصر اور عشاء پوری پڑھے گا یا آدھی پڑھے گا؟؟
الجواب وباللہ التوفیق
مذکورہ شخص کی اگر عصر نماز دوران سفر چھوٹ گئی ہے تو گھر واپس آکر اس کی تو دو رکعت قضاء پڑھے گا،کیونکہ حالت سفر میں قضاء ہوئی ہے ، البتہ عشاء کے وقت میں ہی وہ گھر واپس آگیا ہے، تو عشاء کی نماز اس کے ذمہ چار رکعت فرض ہوگئ ہے ، خواہ ادا پڑھے یا قضاء، بہرحال چار رکعت ہی پڑھنا پڑی گی،
كذا فى الدر المختار (وَالْمُعْتَبَرُ فِي تَغْيِيرِ الْفَرْضِ آخِرُ الْوَقْتِ) وَهُوَ قَدْرُ مَا يَسَعُ التَّحْرِيمَةَ (فَإِنْ كَانَ) الْمُكَلَّفُ، فِي السَّبَبِيَّةِ عِنْدَ عَدَمِ الْأَدَاءِ قَبْلَهُ،
فى الشامية (قَوْلُهُ وَالْمُعْتَبَرُ فِي تَغْيِيرِ الْفَرْضِ) أَيْ مِنْ قَصْرٍ إلَى إتْمَامٍ وَبِالْعَكْسِ (قَوْلُهُ وَهُوَ) أَيْ آخِرُ الْوَقْتِ قَدْرُ مَا يَسَعُ التَّحْرِيمَةَ كَذَا فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّة وَالْبَحْرِ وَالنَّهْرِ، وَاَلَّذِي فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ تَفْسِيرُهُ بِمَا لَا يَبْقَى مِنْهُ قَدْرُ مَا يَسَعُ التَّحْرِيمَةَ وَعِنْدَ زُفَرَ بِمَا لَا يَسَعُ فِيهِ أَدَاءُ الصَّلَاةِ (قَوْلُهُ وَجَبَ رَكْعَتَانِ) أَيْ وَإِنْ كَانَ فِي أَوَّلِهِ مُقِيمًا وَقَوْلُهُ: وَإِلَّا فَأَرْبَعٌ أَيْ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي آخِرِهِ مُسَافِرًا بِأَنْ كَانَ مُقِيمًا فِي آخِرِهِ فَالْوَاجِبُ أَرْبَعٌ، (رد المحتار على الدر المختار/كتاب الصلاة/باب صلاة المسافر/٦١٣/٢، ط: بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم،
شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور بیوی خود ہاٹ کی مریض ہے تو اس کو اطلاع فوراً دینے میں اندیشہ ہے عدم برداشت کا تو اس صورت کا حکم مطلوب ہے
الجواب بعون الملک الوھاب=
واضح رہے کہ ایسے حالات میں شریعت اور حکمت دونوں اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ اطلاع دینے میں نرمی اور حکمت سے کام لیا جائے، تاکہ صدمے سے ان کی صحت پر شدید منفی اثر نہ پڑے۔ اس معاملے میں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے،
کسی قریبی اور ہمدرد شخص کے ذریعے اطلاع دینا،
خبر دینے کے لیے ایسا شخص منتخب کیا جائے جو بیوی کے لیے انتہائی قریبی اور ہمدرد ہو، جیسے اولاد، بہن بھائی، یا والدین۔
اور وہ شخص نرمی اور تسلی کے ساتھ بات کرے تاکہ خاتون پر زیادہ بوجھ نہ پڑے
روحانی اور جذباتی سہارا دینا: صدمے کے وقت دینی اور روحانی پہلو کو مضبوط کیا جائے، جیسے کہ صبر کی تلقین، اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی یاد دہانی، اور دعا و تسلی کے ذریعے حوصلہ دینا۔
اگر اندیشہ ہو کہ بیوی خبر سن کر شدید صدمے میں جا سکتی ہے، تو فوراً بتانے کے بجائے مناسب وقت اور طریقہ اختیار کرنا بہتر ہوگا۔ شریعت میں اس بات کی اجازت ہے کہ کسی کی جان اور صحت کے تحفظ کے لیے ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے جو نقصان سے بچا سکے۔
>