الجواب:-جب خیار مشتری کو ہو اور وہ سامان مشتری کے ہاتھ میں ہلاک ہو جائے تو خیار شرط باطل ہو جاتی ہے اس طرح اگر سامان میں کوئی عیب پیدا ہو جائے جو مشتری کی طرف سے ہے تو بھی خیار شرط باطل ہو جاتی ہے اسی طرح اگر مبیع میں کوئی ایسی زیادتی پیدا ہو جائے جو اصل شئ میں ہو جیسے حسن و جمال مرض سے بری، انکھ وغیرہ سے سفیدی وغیرہ کی ختم ہونا بھی خیار شرط کو باطل کر دیتا ہے اسی طرح اگر دونوں کو خیار شرط ہو تو کسی ایک کی تصرف سے بھی خیار شرط باطل ہو جاتی ہے اسی طرح خیار شرط کے مدت گزر جانے سے بھی خیار شرط باطل ہو جاتی ہے وغیرہ ان کے علاوہ صورتوں سے خیار شرط باطل نہیں ہوتا ہے مثلا اگر ایسی زیادتی ہو جو اصل سے جدا ہو اور اصل سے پیدا بھی نہ ہوئی ہو-
ويخرج عن ملكه اي البائع مع خيار المشتري فقط في هلك بيده بالثمن كتعيبه فيها بعيب لا يرتفع كقطع يد فيلزمه قيمته في المسألة الأولى....(رد المختار: ١٢٢/٧-١٢٣،كتاب البيوع، باب خيار الشرط،زكريا ديوبند)
الخيار اذا كان للمشتري وهلكت العين في يده او انتقض وان ذلك يمنع للفسخ وكذا اذا ازداد المبيع زياده متصلة مولدة من الاصل كالحسن والجمال..... وكذا اذا كانت متصلة غير متولدة من الاصل كالصحيح والخياطة..... لو كان الخيار لهما فتصرف البائع وكذا تصرف المشتري.....(الفتاوى السراجية:٤٢٩،كتاب البيوع، باب خيار الشرط،زكريا جولي افريقه)
قال فإن هلك في يده هلك الثمن وكذا اذا دخله عيب يخلاف ما إذا كان الخيار للبائع....(الهداية:٤٩/٣،كتاب البيوع باب الخيار الشرط،طعمية ديوبند)