الجواب:-اگر بیع کے وقت عیب کا علم ہو جائے یا بیع کے قبضہ کرنے کے بعد علم ہو جائے یا وہ شخص اس پر راضی ہو جائے خریدنے اور قبضہ کرنے کے بعد یا بائع اس شرط پر بیچے اس میں جو بھی عیب ہوگا اس کے ساتھ میں بیچ رہا ہو یا بائع اور مشتری کے کسی عیب پر صلح کر لینے کی وجہ سے یا بائع کے اقرار کر کے سامان بیچنے کے وجہ سے مثلا اس غلام میں بھاگنے کے علاوہ کوئی عیب نہیں تو ان صورتوں میں خیار عیب نہیں ملے گا اور ان کے علاوہ صورتوں میں خیار عیب ملے گا-
ان خيار العيب سقط بالعلم به وقت البيع او وقت القبض او الرضائه بعدهما او اشتراط البراءة من كل عيب او الصلح على شيء او الاقرار بأن لا عيب به اذا عينه كقوله ليس بابق فإنه اقرار بانتفاء الاباق....(شامي: ٢٣٠/٧،كتاب البيوع،باب خيار العيب زكريا ديوبند)
ومنها جهل المشتري بوجود العيب عند العقد والقبض فإن كان عالما به عند احدهما فلا خيار له ومنها عدم اشتراط البراءة عن العيب في المبيع عندنا حتى لو اشترط فلا خيار للمشتري كذا في" البائع"(بالفتاوى الهندية:٦٨/٣،كتاب البيوع زكريا ديوبند)
الاصل ان المشتري متى تصرف في المشتري بعد العلم بالعيب تصرف الملاك بطل حقه في الرد....(بالفتاوى الهندية:٧٦/٣،كتاب البيوع زكريا ديوبند)