سوال:-عقیقہ کے لغوي اور شرعی معنی کیا ہے؟

جواب:-عقیقہ کے لوگوں کی معنی ہے کاٹنا اور شرعی معنی ہے بچے کی پیدائش پر شکرانہ طور پر جو قربانی کی جاتی ہے اس سے عقیقہ کہتے ہیں۔واللہ اعلم

العقيقة في الاصطلاحي ما يذكي عن المولد شكر الله تعالى بنية وشرائط مخصوصة--//الموسوعة الفقهيه،ج٣،ص٢٧٦

سوال:-عقیقہ کا شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:-عقیقہ  شرعی طور پر مستحب ہے نو مولد بچہ بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتا ہے وہ عقیقہ ہے اور عقیقہ کرنا سنت ہے اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے

عن سموره بن جندب رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كل غلام رهينه بعقيقته تذبح عنه يوم سابعه ويلحق ويسمى--//سنن ابو داؤد

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انما نسالك احدنا يولد له قال من احب ان ينسك عن واحده فلينسك عنه عن الغلام شاتان مكافاتان وعن الجارية شاة آخ --//سنن نسائی:٤٢١٧

عن امر كرز كعبة قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عن الغلام الشاتان مكافتان وعن الجارية شاه--//مسند محمد بن حنبل،ج:٦،ص:٤٢٢

مردہ بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں اگر اس میں کوئی اختلاف ہے تو وضاحت کریں؟

.جواب:-سورۃ مسئلہ میں عقیقہ کرنا درست نہیں ہے اور یہی صحیح قول ہے کیونکہ جب بچہ فوت ہو گیا تو اس کو بلاؤ اور مصیبتوں سے بچانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر بھی اگر اس کی طرف سے بکرا وغیرہ ذبح کرے اور غریب دوست احباب رشتہ داروں کو گوشت تقسیم کر دے صدقہ نافلہ کا ثواب ملے گا یہ عقیقہ نہ ہوگا البتہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح زندوں کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب ہے اسی طرح مردوں کی طرف سے بھی عقیقہ کرنا مستحب ہے حضرات حسن بصری اور مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم

ويستحب لمن ولد له ولد ان يسمعه يوم الاسبوعه ثم يعق عنه الحق عقيقة اباحة او تطوعا--//شامي, ٤٨٥/٩ كتاب الاضحية زكريا دوبند

وانما اخذ اصحابنا الحنيفة في ذلك يقول الجمهور وقالوا بالاستحباب العقيقه--//اعلا السنن١١٣/١٧ دار الكتاب العلميه بيروت

حديث ثمرة بن جندب رضي الله تعالى عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الغلام مرتحن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع وفي روايه كل غلام رهينه بعقيقته يذبع عنه يوم السابع ويحلقه ويسمي قال الشافعي رحمه الله مات المولد قبل السابع استحبب العقيقه عنه كما تستحب عن الحي وقال الحسن بصري ومالك رحمه الله لا تستحي بالعقيقه عنه--//الموسوعة الفقهيه,٢٧٦/٣ باب العقيقه

بالغ ہونے کے بعد عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں اگر درست ہو تو بلوغ کے وقت استحباب کی فضیلت حاصل ہوئی یا نہیں مدلل بیان کریں؟

جواب:-سورت مسند میں عقیقہ کرنا تو درست ہے البتہ استحباب کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی کیونکہ مستحب وقت ساتویں دن چودھویں یا اکیسویں دن ہے اس کے بعد استحباب کی فضیلت باقی نہیں رہتی ہے۔فقط واللہ اعلم

ويستحب لمن ولد له ولد ان يسمعه يوم اسبوعه ثم يعق عنه الحلق عقيقة اباحه او فطوعا--// شامي،ج:٩،ص٤٨٥،كتاب الاضحية ،زكريا،دوبند

عن سمره قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلام مرتهم بعقيقته يذبح عنه يوم السابع وسمي ويحلق راسه-والعمل على هذا عند اهل العلم يستحبون ان يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع فان لم ينهيا يوم السابع فيوم الرابع عشره فان لم الى آخ --//سنن الترمذي, ١٨١/٣ رقم الحديث: ١٥٢٢ باب من العقيقة

انما اخذ اصحابنا الحنيفة في ذلك يقول الجمهور قالوا باستحباب العقيقة --/الملاء سنن:١١٣/١٧ باب العقيقة ،دار الكتاب العلميه بيروت

1 thought on “سوال:-عقیقہ کے لغوي اور شرعی معنی کیا ہے؟”

Leave a Comment