سوال:-طلاق کے کتنی قسمیں ہیں ہر ایک کے تعریف اور اس کا حکم تحریر کریں؟

الجواب:-طلاق کی تین قسمیں ہیں (1) احسن (2) حسن (3) بدعی-طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ ادمی اپنی بیوی کو ایک طلاق ایسے طہر میں دے جس میں بیوی سے محبت نہ کی ہو اور عدت گزرنے تک اسے چھوڑ دے اور حسن کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طہر میں تین طلاق دے یعنی ایک طہر میں ایک طلاق دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے اور طلاق بدعی یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق ایک ہی کلمہ میں دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے تو طلاق واقع ہوگی اور وہ آدمی گنہگار ہوگا

فالاحسن: ان يطلق امراته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها......... والحسن:ان يطلقها واحدة في طهر لم يجامعها فيه ثم في طهر اخر اخرى...... واما البدعي: بدعي لمعنى يعود الى العدد ويدعي لمعنى يعود الى الوقت.....(الهندية:٤١٥/١-٤١٦،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واقسامه ثلاثة: حسن واحسن وبدعي يأثم به والفاظه ومحله المنكوحة..... طلقة رجعية فقط في طهر لاوطء فيه...... احسن.... وطلقة لغير موطوءة ولو في حيض ولا موطوءة تفريق الثلاث في ثلاثة اطهار لا وطء فيها ولا في حيض......(رد المختار: ٤٣١/٤-٤٣٣،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

قال الطلاق على ثلاثة اوجه حسن واحسن وبدعي فالاحسن ان يطلق الرجل امراته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها....... والحسن هو طلاق السنة وهو ان يطلق المدخول بها ثلثا في الطهار..... والطلاق البدعة يطلقها ثلثا بكلمة واحدة او ثلثا في طهر واحد.....(هدايه: ٣٧٥/٢-٣٧٦ كتاب الطلاق، زمزم ديوبند)

سوال:-طلاق دینے کا حقدار کون اور کب ہے اور کون حقدار نہیں مفصل بیان کریں؟

الجواب:-شریعت نے طلاق دینے کا حق صرف شوہر کو دے رکھا ہے اور ان کی علاوہ بیوی کو طلاق کے حق نہیں اور طلاق اس وقت دے جب اس کو سمجھانے کے بعد بھی وہ باز نہ ائے اس کی وجہ سے اور دل نہ ملنے سے تو اس وقت طلاق دے اور عورت کو اسی لیے نہیں دیا چونکہ فطری ساخت کے اعتبار سے فرق ہے اس لیے شریعت نے نہ تو عورتوں پر کمانے کا بوجھ ڈالا ہے اور نہ ان کو طلاق کے اختیار ہے-

وللرجال عليهن درجة.....(البقرة ايت:٢٢٨)

عن ابن عباس قال........ فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:...... انما الطلاق لمن اخذ بالساق.....(سنن ابن ماجه: ١٥١،كتاب الطلاق باب الطلاق العبد النسخة الهندية دار السلام)

واما حكم الطلاق فزوال الملك عن المحل.....وزوال حل العقد متى ثم ثلاث.....(تاتارخانية ٣٧٧/٤ زكريا ديوبند)

Leave a Comment