جواب:-زکوۃ فقراء اور مساکین کا حق ہے اور یہ فقراء عام ضرورت مند بھی ہو سکتے ہیں اور مدارس کے طلباء بھی لہذا قرائن اور حالت دیکھتے ہوئے جہاں ضرورت مند زیادہ ہو وہاں خرچ کرنا زیادہ ثواب ہوگا یعنی دونوں ممکن ہیں مثلا اپ کے پڑوسی یا قریبی رشتہ دار ضرورت مند ہو تو ان کو دینے سے دوگنا ثواب ملے گا ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی کا اسی طرح مدارس میں قرض کرنے سے زکوۃ کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کے نشر اشاعت کا بھی ثواب ملتا ہے۔فقط واللہ اعلم
الدفع الى من عله الدين اولى من دفع الى فقير ،وكذا في المضمرات....(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)
والحيلة ان يعطي المديون زكاته ثم ياخذها عن دينه ولو امتنع المديون مديده واخذها لكونه لا ظفر بجنسه حقه فان مانعه دفعه القاضي....(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:٧١٥-٧١٦،كتاب الزكاة اشرفيه ديوبند)
وحيلة الجواز ان يعطي مديونه الفقير زكاته ثم ياخذها عن دينه ولو امتنع مديون مد يده واخذها لكونه ظفر بجنس حقه فان مانعه...(رد المختار: ١٩٠/٣-١٩١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)
سوال:-ہحلہ تملیک کی کتنی صورتیں ہیں اور وہ کیا کیا ہے مفصل بیان کریں؟
جواب:- حیلہ تملیک کی کئی صورتیں ہیں اور ان میں سے چند یہ ہے کہ (1). فقیر کو زکوۃ کے مال کا بالکلہ مالک بنا دیا جائے پھر اس سے کہا جائے کہ فلاں جگہ پر خرچ کی ضرورت ہے تم اپنی طرف سے وہاں خرچ کر دو تو اگر وہ برضا و رغبت اس جگہ کا خرچ کر دے تو اس عمل کا اسے ثواب ملے گا اور زکوۃ بھی ادا ہو جائے گی۔(2). فقیر سے کہا جائے کہ تم اپنی طور پر قرض لے کر فلاں ضرورت میں قرض کر دو اور خرچ کے بعد فقیر کے قرض کی ادائیگی زکوۃ کے رقم سے کر دی جائے تو ایسی صورت میں بلا شبہ زکوۃ ادا ہو جائے گی (3). مدرسہ کا جتنا ماہنا خرچ بشمول مد تعلیم و تنخواہ مدرسین اتا ہو اس کو طلبہ کی تعداد پر تقسیم کر دے تو جو حاصل ائے اتنی رقم پر طالب علم پر بطور فیس مقرر کر دی جائے اور ہر مہینے فیس کے بقدر رقم بطور وظیفہ طلب علم کو دے کر اس سے بطور فیس لے لی جائے توفیق کی شکل میں جو رقم واپس ائے گی اس کو مدرسے کی ہر طرح کی ضرورت میں خرچ کرنا جائز رہے گا.
والحيلة لمن اراد ذلك ان يتصدق ينوي الزكاة على فقير ثم يامر بعد ذلك بالصرف الى هذه الاجوه فيكون لصاحب المال ثواب الصدقة ولذلك الفقير ثواب هذا الصرف...(تاتارخانية:٢٠٨/٣،كتاب الزكاة زكريا ديوبند)
والدفع الى من عليه الدين اولى من دفع الى فقير....(الهنديه: ٢٥٠/١ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)
وفي جامع الفتوى: لا يسعه ذلك وكل حيلة يحتال بها الوجل ليتخلص بها عن حرام او ليتوصل بها الى حلال فهي حسنة.....(تاتارخانية:٣٠١/٣ كتاب الزكاة زكريا ديوبند)
سوال:-مال مستفی کسے کہتے ہیں اور اس کے اندر زکوۃ کا شرعا کیا حکم ہے اگر کوئی اختلاف ہو تو اختلافی ائمہ مدلل بیان کریں؟
جواب:-مال مستفاد وہ مال ہے جو دوران سال نصاب سے زائد حاصل ہو اور اس کے تین صورتیں ہیں(1). نصاب پہلے سے موجود ہو پھر دوران سال اسی نصاب سے دوسرا عمل حاصل ہو تو بالاتفاق ان میں حولان حول شرط نہیں ہے بلکہ سابقہ مال کے ساتھ زکوۃ نکالی جائے گی۔(2). پہلے نصاب موجود ہو پھر دوران سال میں خلاف جنس مال حاصل ہو تو بالاتفاق ان کے لیے حولان حول شرط ہے۔(3) پہلے نصاب موجود ہو پھر اس کا ہم جنس مال حاصل ہو مثلا وراثت ہبہ وغیرہ اس میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کیا نزدیک ان میں حولان حول شرط نہیں ہے بلکہ سابقہ مال کے ساتھ اس کا حساب کیا جائے اور زکوۃ دی جائے امام شافعی رحمہ اللہ وہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک مستقل حولان حول شرط ہے امام مالک رحمہ اللہ سوائم میں حنفہہ کے ساتھ اور دوسرے مال میں شوافیہ کے ساتھ ہے
1 thought on “١.سوال:-زکوۃ کا مال خرچ کرنے کے لیے کن چیزوں پر حیلہ تملیک اختیار کرنا درست ہے اور کن چیزوں پر حیلہ تملیک اختیار کرنا درست نہیں ہے بوضاحت تحریر کریں؟”