سوال:-تعلیم قران یا خدمت وغیرہ کو مہر بنانا شرعا درست ہے یا نہیں اگر درست ہے تو کیوں اگر درست نہیں تو کیوں اگر اس میں کوئی اختلاف ہو تو اس کی بھی وضاحت کریں؟

جواب:-صورت مسئولہ میں نکاح تو درست ہو جائے گا البتہ تعلیم قران خدمت وغیرہ کو مہر بنانا شرعا درست نہیں ہے کیونکہ یہ چیزیں مال نہیں ہے حالانکہ کلام پاک میںں اللہ تعالی نے فرمایا کہ نکاح مال کے عوض طلب کرو یعنی مہر مال ہونا چاہیے اور تعلیم قران وغیرہ مال نہیں ہے لہذا اس کو مہر بنانا بھی درست نہیں ہوگا یہ تفصیل احناف کے نزدیک ہے اور مہر مثل واجب ہوگا احناف کے نزدیک اور امام شافع نے تعلیم قران وغیرہ کو مہر بنانے کو جائز قرار دیا ہے

وفي حدمة زوج حد سنة للامهار.... وفي تعليم القران اي يجب مهر المثل فيما لو تزوجها على اي يعلمها القران او نحوه من الطاعات....... لهذا ذكر في فتح القدير هنا انه لما جوز الشافعي اخذ الاجر......(رد المختار مع شامي: ٢٤٠/٤،كتاب النكاح باب المهر، زكريا ديوبند)

او تزوجها بتعليم القران لانه ليس بمال او بخدمة الزوج الحر لها سنه لان الخدمة ليس بمال لما فيه من قلب الموضوع فيجب مهرا المثل... وعند الشافعي: كل ما يجوز اخذ العوض عنه يصلح مهرا فتعلم القران... والعفو عن القصاص يصلح مهرا عنده......(مجمع الانهر: ٥٠٩/١-٥١٢،كتاب النكاح فقيه الامة ديوبند)

وان تزوجها..... على خدمته سنة او تعليم القران جاز النكاح ولها مهر المثل...(كتاب الاختيار للتعليل المختار: ١٣٠/٣،كتاب النكاح فقيه الامة ديوبند)

Leave a Comment