سوال:-بیع الوفاء شرعا درست ہے یا نہیں یا اس میں کوئی اختلاف ہے اگر ہو تو اختلافی اقوال کو نقل کرنے کے بعد راجح قول کی بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-بیع الوفاء شرعا درست ہے یا نہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات نے اس بیع کو مطلقا رہن کے حکم میں رکھا ہے اور مشتری کے لیے مرہون سے انتفاع کو ناجائز قرار دیا ہے ان حضرات کا کہنا ہے کہ عقود میں الفاظ کا اعتبار نہیں ہے بلکہ مقاصد کا اعتبار ہونا ہے چنانچہ مقصود کا اعتبار کرتے ہوئے بیع الوفاء پر رہن کے تمام احکامات جاری ہوتے ہیں اور یہ معاملہ ظاہرا بیع اور باطناً رہن کا ہے اور اصولی اعتبار سے اس معاملہ میں عدم جواز کا پہلو غالب ہے- دوسرا قول یہ ہے کہ بعض پہلو کے اعتبار سے اگرچہ فساد پایا جاتا ہے لیکن انجام کاریہ ایک جائز عقد بن جاتا ہے جس کے ذریعہ مشتری کے لیے مبیع پر قبضہ کے بعد ملکیت مان لی جاتی ہے نیز لوگوں کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے شروط فاسدہ کو بھی اس عقد میں گوار کر لیا گیا ہے تیسرا قول یہ ہے کہ لوگوں کے عرف و تعامل اور ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض حضرات فقہاء نے عقد کو دائرہ جواز میں لانے کے لیے یہ حیلہ فرمایا ہے کہ اولا بیع کو مطلق عن الشرط رکھا جائے اور پھر مجلس عقد کے بعد آپس میں یہ طے کر لیا جائے کہ جب ثمن کی واپس ہوگی تو اس بیع کا اقالہ کر لیا جائے گا گویا بیع الگ ہو اور وعدہ الگ دونوں آپس میں مشروط نہ ہو اور یہی قول راجح ہے علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے-

وفي حاشية الفصولين عن جواهر الفتاوى: هو ان يقول بعت منك على ان تبيعه مني متى جئت بالثمن فهذا البيع باطل وهو رهن....(شامي:٥٤٥/٧،كتاب البيوع، باب الصرف، زكريا ديوبند)

بيع المعاملة وبيع الوفاء واحد وانه بيع فاسد لانه بيع بشرط لا يقنضيه العقد، وانه بفيد الملك عند اتصال القبض به كسائر البيوع الفاسدة....(الفتاوى السراجية:٤٢٢،مكتبة اتحاد ديوبند )

والصحيح ان العقد الذي جري بينهما ان كان بلفظ البيع لا يكون رهنا.... ثم ذكر الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزمه الوفاء بالوعد....(فتاوى قاضيخان:٩٩/٨،كتاب البيوع زكريا ديوبند)

Leave a Comment