سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور اس کا شرعا کیا حکم ہے نیز اگر شوہر یہ کہے کہ میری نیت ایک طلاق کی تھی تو ایسی صورت میں کیا حکم ہے مدلل بیان کریں؟

الجواب:-اگر کوئی شخص اپنے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے تو اس سے ہر حال طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ نیت کرے یا نہ کرے اور جتنی مرتبہ کلمہ طلاق کو دہرائے گا اتنی طلاق واقع ہوگی لہذا مسئولہ صورت میں تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی بشرطے کے بیوی مدخول بہا یا اس کے ساتھ خلوت صحیحہ ہو چکی ہو کیونکہ یہ لفظ صریح ہے اور اسے تین مرتبہ دہرایا گیا ہے اور شوہر کی بات معتبر نہیں ہوگی اور شرعا وہ بیوی ان پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے اب ان دونوں کے لیے بغیر حلالہ شرعی کے ایک ساتھ ازدواجی زندگی گزارنا قطعا جائز نہیں ہے-

فان طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره......الخ( سورة البقرة: رقم الاية:٢٣)

وان الطلاق ثلاثا في الحرة.... تقع الثلث.... لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم لطلقها او عوت عنها.....(الهندية:٤٧٢/١،كتاب الطلاق ،زكريا ديوبند)

لو قال اكثر الطلاق او انت طالق مراة في البحر عن الجوهرة: لو قال انت طالق مرارا اتطلق ثلاثا ان كان مدخولا بها......(الدر المختار مع الشامي: ٥٠٤/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو جواب ہے جواب ہے جواب ہے تو ایسی صورت میں کونسی اور کتنی طلاق واقع ہوگی ایا عرف کے اعتبار سے حکم بدل سکتا ہے اگر بدل سکتا ہے تو دونوں طرح جواب تحریر کریں؟

الجواب:-فقہاء کرام نے تجھ کو جواب ہے کو الفاظ کنائی میں شمار کیا ہے اس کی دو سے دو صورت مسولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوگی تجھ کو جواب ہے اور دو مرتبہ کہاں ہیں اس سے کوئی طلاق نہیں پڑے گی کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے البائن لا یلحق البائن لہذا اس سے ایک طلاق بائن ہی پڑے گی لیکن بعض علاقوں میں یہ لفظ صریح طلاق کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے تو اس کی دو سے صورت مسئولہ میں تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی کیونکہ الفاظ صریح کو جتنی مرتبہ دہرائے گا اتنی ہی طلاق واقع ہوگی اور یہاں تین مرتبہ دہرایا ہے لہذا اس سے تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی ….

ولو قال اكثر الطلاق او انت طالق مرارا..... لطلق ثلاث..... ان كان مدخولا بها فثلاث هو المختار....(شامي :٥٠٤/٤،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واذا قال لامراته :انت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط ان كانت مدخولة طلقت ثلاثا وان كانت غير مدخولة طلقت واحدة.....(الهندية: ٤٢٣/١،كتاب الطلاق، اشرفية ديوبند)

فان سرحتک كتابة لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح ..... مع ان اصله كناية ايضا.....(شامي: ٥٣٠/٤ كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور رخصتی سے پہلے کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے یا یہ کہے دے کہ تجھ کو تینوں طلاق ہے تو ان دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے دونوں صورتوں میں ایک حکم ہوگا یا الگ الگ اگر ایک ہو تو کیوں اگر الگ الگ ہو تو کیوں مدلل المفصل بیان کریں؟

الجواب:-مسئولہ صورت میں اگر تین طلاق الگ الگ جملوں سے دی ہے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور باقی دو طلاقیں واقع نہیں ہوگی کیونکہ غیر مد خول بہا ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے یعنی محل باقی نہیں رہتا ہے اس لیے باقی دو واقع نہیں ہوگی اور بیوی پر عدت گزارنا بھی لازم نہیں ہے پھر اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس عورت سے نئے مہر و گواہوں کے موجودگی میں تجدید نکاح کر سکتے ہیں لیکن ائندہ کے لیے دو طلاق کا مالک رہے گا اور اگر تینوں طلاق اکھٹی ایک ہی جملہ سے دیی ہو تو اس صورت میں تینوں طلاق واقع ہو جائے گی اور بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی اب رجوع کرنا جائز نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ عورت حلالہ شرعی کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنا چاہے تو اب درست ہے اس تفصیل سے دونوں صورتوں کے درمیان فرق ہوگا-

قال لزوجته غير المدخول بها انت طالق ثلاثا....... وقعن لما تقرد انه متى..... وان فرق بوصف او خبر او جمل..... بانت بالاولى الا الى عدة وكذا لم تقع الثانيه........ وكذا انت طالق ثلاثا متفرقات او..... واحدة....(رد المختار: ٥٠٩/٤-٥١٢،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واذا قال لامراته انت طالق وطالق وطالق ولم يعلقه بالشرط ان كانت مدخوله طلقت ثلاثا وان كانت غير مدخوله طلقت واحدة.....(الهندية:٤٢٣/١،كتاب الطلاق اشرفيه ديوبند)

واذا اطلق الرجل امراته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها لان الواقع مصدر عزوف لان معناه طلاقا ثلاثا...... فان فرق الطلاق بانت بالاولى ولم تقع الثانية والثلاثة الخ......(هدايه: ٢٩٠/٢، كتاب الطلاق ،زمزم ديوبند)

سوال:اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکے امام کے رکوع کے اٹھنے کے بعد رکوع کر لے تو مقتدی کی وہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں ؟

الجواب و باللہ التوفیق:-اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع نہ کر سکے بلکہ امام رکوع سے فارگ ہونے کے بعد رکوع کر کے امام کے ساتھ شامل ہو جائے تو مقتدی کی وہ رکعت بالاتفاق شمار ہوگی یعنی مقتدی اس رکعت کو پانے والا ہوگا اس پر سجدہ سہو لازم نہ ہوگا –//شامی ج:٢،ص:٥١٦ زکریا –// بداءع،ج:١،ص:٥٦٢ زکریا –//البنایہ ج:٢،ص:٥٧٨ اشرفیہ

(١) إذا انتهى إلى الإمام وهو قائم يكبر ولم يركع معه حتى رفع الامام راسه من الركوع ثم ركع أنه يدرك الركعة بالاجماع....(البناية شرح الهداية)2/578،ط اشرفية

(٢) بخلاف ما لو أدركه في القيام ولم يركع معه فإنه يصير مدركا لها فيكون لاحقا فياتي بها قبل الفراغ أي أنه ياتي بها قبل متابعة الإمام فيما بعدها حتى لو تابع الإمام ثم أتى بعد فراغ إمامه بما فاتته صح وأثم لترك واجب الترتيب...(الدر المختار مع الشامي) 2/516،ط زكريا

Leave a Comment