١.سوال:-اگر کوئی شخص الفاظ طلاق کو بگاڑ کر تلفظ کر لے تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں یا اس میں کوئی تفصیل ہے ہر صورت اطمینان بخش جواب تحریر کریں؟

الجواب:-اس صورت میں طلاق کی الفاظ کو بگاڑنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے کیونکہ الفاظ طلاق کو بگاڑ تلفظ کرنے کو شریعت کی اصطلاح میں تحریف اور تصحیف کہا جاتا ہے اور ایک کرام نے تحریف اور تصحیف شدہ الفاظ کو صریح اور صحیح الفاظ کے مثل مان لیے ہیں لہذا تصحیف شدہ الفاظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اگر تلفظ کیا تو جیسے طلاغ،تلاغ،طلاک،تلاک وغیرہ۔

ويقع بها اي بهذه الالفاظ وما بمعناها من الصريح و يدل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك او ط ل ق.....(رد المختار: ٤٥٩/٤،كتاب الطلاق باب الصريح ،زكريا ديوبند)

رجل قال لامراته: ترا تلاق هاهنا خمسة الفاظ: تلاق وتلاغ وطلاك وطلاك وطلاك عن الشيخ الامام الخليل ابي..... انه يقع وان تعمد وقصد ان لا يقع....(الهنديه: ٤٢٤/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

واما المسحف فهو خمسة الفاظ:تلاق وتلاغ .......وطلاغ وطلاك وتلاك،قال لا يقع به الا واحدة وان نوى اكثر من ذلك.....(فتح القدير: ٧/٤ ،كتاب الطلاق، بيروت)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تجھ کو طلاق ہے یا یہ کہے کہ تجھ کو جواب ہے تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور کیوں واقع ہوگی مدلل مفصل بیان کریں؟

الجواب:-صورت مسولہ میں تجھ کو طلاق کی صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اس لیے کہ یہ صریح الفاظ میں سے ہے اور کہا تجھ کو جواب ہے اس کو (فتاوی محمودیہ: ٥٧٨/١٢) وغیرہ میں طلاق کنائی میں شمار کیا ہے اس کی دو سے تو صورت مسولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوگی لیکن بعض علاقوں میں یہ لفظ طلاق کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ احسن الفتاوی:١٩٢/٥ کراچی میں ہے۔تو اس کی دو سے ایک طلاق صریح واقع ہوگی بلکہ خلاصہ یہ ہے کہ عرف پر مبنی ہے ۔

كنايته عند الفقهاء ما لم يوضع له اي الطلاق واحتمله وغيره....(رد المختار: ٥٢٦/٤،كتاب الطلاق، باب الكنايات، زكريا ديوبند)

الفصل الاول: في الطلاق الصريح وهو كانت طالق ومطلقة وطلقتل وتقع واحدة رجعية وان نوى الاكثر .....(الهندية:٤٢٢/١،كتاب الطلاق، زكريا ديوبند)

فالصريح قوله انت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي لان هذه الالفاظ تستعمل في الطلاق ولا تستعمل في غيره....(هدايه: ٣٨٠/٢،كتاب الطلاق، زمزم ديوبند)

سوال:-اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو آزاد ہے تو ایسی صورت میں کون سی اور کتنی طلاق واقع ہوگی اور آزاد ہونے کا حکم ہر جگہ ایک ہوگا یا الگ الگ اگر ایک ہو تو کیوں اور اگر الگ الگ ہو تو کیوں یہ وضاحت تحریر کریں؟

الجواب:-تو آزاد ہے یہ لفظ اصلا تو کنائی ہے مگر بعض جگہ یہ لفظ خالص طلاق میں استعمال ہونے لگا لہذا جن جگہوں میں یہ لفظ صریح بن گیا ہو وہاں اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور اس سے زیادہ کی نیت کی ہو تو زیادہ واقع ہوگی اور جہاں یہ عرفط نہیں بنا وہاں اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی اگر ایک کی نیت کرے اور اگر اس سے زیادہ کی نیت کرے تو زیادہ واقع ہوگی

والاصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية انه اذا كان فيها لفظ لا يستعمل الا في الطلاق فذلك الفظ صريح يقع به الطلاق من غير نيت اذا اضيف الى المراة.....(الهندية:٣٨٩/١،كتاب الطلاق،زكريا ديوبند)

فان سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فاذا قال... اي سرحتك يقع به الرجعي مع ان اصله كناية ايضا.....(الدر المختار مع الشامي: ٥٣٠/٤،كتاب الطلاق،زكريا ديوبند)

وبقيه الكنايات اذا نوى بها الطلاق كانت واحدة بانية وان نوى ثلثة كان ثلثا.... وهذا مثل قوله انت باين وبنة وبثلت......(هدايه: ٣٩١/٢،كتاب الطلاق،زمزم ديوبند)

Leave a Comment