سوال:-اگر کسی شخص کو نماز کے اندر رکعت کی تعداد میں اشتبا ہو جائے تو شرعا کیا حکم ہے اگر اس میں کوئی تفصیل ہے اس کو بھی وضاحت کریں؟

الجواب:-اس صورت میں اگر بار بار بھولنے کی شکل پیش آتی ہے تو غالب ظن اور یقین پر عمل کرتے ہوئے کم سے کم رکعت پر بنا کرنی چاہیے اور آخر میں سجدہ سہو کر لینا چاہیے اور جب سجدہ سہو کر لیا اب نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں چاہے نماز فرض ہو یا سنت سب برابر البتہ اگر کسی شخص کو پہلی مرتبہ یا کبھی کبھی ایسا شک ہوتا ہے اسے چاہیے کہ نیت توڑ کر پھر سے نماز پڑھے تاکہ کوئی شک شبہ نہ رہے-

وان كثر الشك تحري وعمل بغالب ظنه.... فإن لم يغلب له ظن اخذ بالاقل لقوله عليه السلام: اذا سها احدكم في صلاته فلم يدر واحدة صلى او ثنتين على واحدة فإن لم يدر ثنتين صلى او ثلاثا فليبن على ثنتين فإن لم يدر ثلاثا صلى او اربعا فليبن على ثلاث ويسجد سجدتين قبل ان يسلم.... وقعد وتشهد بعد كل ركعة ظنها آخر صلاته....(حاشية الطحطاوي على المراقي:٤٧٧)

وذكر في الفتاوى الخاقانية فقال رجل صلى ولم يدر ثلاثا صلى ام اربعا قال ان كان ذلك اول ما سهى استقبل....(حلبي كبير: ٤٧٠)

واعلم انه اذ شغله ذلك الشك فتكفر قدر أداء ركن ولم يشتغل صور الشك....(رد المختار: ٥٦٢/٢-٥٦٣،كتاب الصلاة، باب سجود السهو،زكريا ديوبند)

Leave a Comment