تراویح کے8 رکعت ہونے پر غیر مقلدین جو دلیل دیتے ہیں اسکا مدلل جواب اور اپنے 20 رکعت ہونے پر مضبوط و مستند دلائل مطلوب ہیں؟

الجواب باللہ التوفيق: آٹھ رکعات تراویح پر غیر مقلدین بنیادی طور پر دو حدیثیں پیش کرتے ہیں: پہلی حدیث: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں (رات کو) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہوتا یا کوئی اور پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے، پس ان کی خوبی اورلمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی لمبی اور خوب ہوا کرتی تھیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے (صحیح البخاری: كتاب التهجد: باب قيام النبي صلى الله عليه وسلم في رمضان وغيره ج/١ ص/١٥٤) یہ حدیث دراصل نماز تہجد کے بارے میں ہے اور غیر مقلدین جو اس حدیث سے آٹھ رکعات تراویح پر استدلال کرتے ہیں ان کا یہ استدلال درست نہیں ہے اور ان کا خود بھی اس حدیث پرعمل نہیں ہے اس لیے کہ اس حدیث میں رمضان اور غیر رمضان دونوں میں آٹھ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات صرف رمضان میں پڑھتے ہیں اور اس حدیث میں چار چار کر کے پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات دو دو کر کے پڑھتے ہیں اور اس حدیث میں تنہا پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس حدیث میں تین رکعات وتر پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ حضرات ایک رکعت وتر پڑھتے ہیںدوسری حدیث جو غیر مقلدین پیش کرتے ہیں وہ مؤطا امام مالک کی یہ روایت ہے: حدثنی عن ﻣﺎﻟﻚ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ، ﻋﻦ اﻟﺴﺎﺋﺐ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ؛ ﺃﻧﻪ ﻗﺎل ﺃﻣﺮ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺑﻦ ﻛﻌﺐ ﻭﺗﻤﻴﻤﺎ اﻟﺪﻳﺮﻱ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻣﺎ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﺑﺈﺣﺪﻯ ﻋﺸﺮﺓ ﺭﻛﻌﺔ (مؤطا امام مالک:ص ١١٦) ترجمہ: حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات کی امامت کرائیں۔ علامہ عبدالبر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ امام مالک کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس حدیث میں “احدی عشرۃ رکعة” یعنی گیارہ رکعت کا ذکر کیا ہو بلکہ تمام راویوں نے گیارہ رکعات کی جگہ “احدى و عشرين” (اکیس رکعات) ذکر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ امام مالک کو گیارہ رکعات میں وہم ہوا ہے…

حدثنی عن ﻣﺎﻟﻚ ﻋﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺭﻭﻣﺎﻥ اﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺎﺱ ﻳﻘﻮﻣﻮﻥ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ‌ ﻓﻲ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺑﺜﻼﺙ ﻭﻋﺸﺮﻳﻦ ﺭﻛﻌﺔ. (مؤطا امام مالک:ص/١١٦)

عن عبد الله قال في طلاق السنة يطلقها عند كل طهر تطليقة فإذا طهرت الثالثة طلقها وعليها بعد ذلك حيضة. (سنن ابن ماجة/كتاب الطلاق، ص: ٢٦٢، ط: رحمانية)

حضرت یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے (بیس رکعات تراویح تین رکعات وتر) اور غیر مقلدین کے علاوہ ائمہ اربعہ اور جمہور امت کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مواظبت اور اجماعِ امت کی وجہ سے تراویح بیس رکعت ہی سنت ہیں جس پر کئ احادیث موجود ہیں:

عن ابن عباس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة والوتر (السنن الکبریٰ للبیہقی: کتاب الصلوۃ: باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شهر رمضان: ج/٢ ص/٦٩٨) عن يحيى بن سعيد ان عمر بن الخطاب امر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة (مصنف ابن ابي شيبه: ج/٥ ص/ ٢٢٣ رقم:٧٧٦٤) عن ابي الحسناء: ان عليا امر رجلا يصلي بهم في رمضان عشرين ركعة (مصنف ابن ابی شیبہ:ج/٥ ص/ ٢٢٣ رقم:٧٧٦٣) عن سعيد بن عبيد: ان على بن ربيعة كان يصلي بهم في رمضان خمس تریحات ویوتر بثلاث (مصنف ابن ابی شیبہ: ج/٥ ص/٢٢٤ رقم:٧٦٩٠)

Leave a Comment