١ .سوال :-ایک عورت کے دو لڑکے ہیں اور لڑکی ہے اور لڑکی کی شادی ہو چکی ہے لیکن بہت غریب ہے شوہر کماتا نہیں اب ماں نے اس کے لئے کچھ پیسے جمع کئے ہیں اس طور پر کہ کچھ تو اپنی ملکیت میں سے اور کچھ اس طرح کہ بیٹے ماں کے پاس پیسے جمع کیا کرتے تھے تو ماں بیٹوں کی اجازت کے بغیر اس میں سے بھی نکال لیا کرتی تھی۔اب سوال یہ کہ کیا ماں نے جو پیسے بیٹوں کی اجازت کے بغیر نکالے ہیں اسے اپنی بیٹی کو دینا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب و بالله التوفيق:
سوال نامہ سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ بیٹے نے ماں کو اپنے مال کا مالک نہیں بنایا ۔ بلکہ اُس کے پاس بطور امانت رکھا ہے یا بغرض حفاظت ۔ لہٰذا ماں کا بیٹے کے مال میں میں سے بلا اجازت اپنی بیٹی کی ضرورت میں صرف کرنا جائز نہیں ۔۔ البتہ بھائی کو چاہیئے کہ وہ اپنے بہن کی ضرورت کا خیال رکھے ۔ ان شاء اللہ ۔ اجر عظیم کا مستحق ہوگا

فَلْیُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَه وَلْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّه. (سورة البقرة، رقم الآية: ۲۸۳)

وعن أنس رضي الله عنه قال: قلما خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: "لا ‌إيمان ‌لمن ‌لا ‌أمانة له ولا دين لمن لا عهد له". رواه البيهقي في شعب الإيمان". (کتاب الایمان/الفصل الثانی، ١٧/١، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

الأصل أنه لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا أذنه. (الموسوعة الفقهية/المادة: ضمان/حال تنفيذ إذن المالك وغيره، ٢٩٦/٢٨، ط: الكويت)

سوال :- فأمہ ھاویہ کی جگہ اگر ۔ فی عیشہ الراضیہ ۔ پڑھ دیا تو نماز فاسد ہو جائے گی ؟

الجواب وبالله التوفيق:
ذکر کردہ صورت میں نماز فاسد ہوجائے گی۔

وإن اختلفا متباعدا نحو أن يختم آية الرحمة بآية العذاب، أو آية العذاب بآية الرحمة....فعلى قول أبي حنيفة ومحمد: تفسد صلاته. (الفتاوى التاتارخانية/كتاب الصلاة/الفصل الثاني: مسائل زلة القاري، ٩٦/٢، رقم: ١٨٤٣، ط: زكريا ديوبند)

إن كانت الكلمة الثانية في القرآن فهو على وجهين، إما إن كانت موافقة للأولى في المعنى، أو مخالفة، فإن كانت موافقة لا تفسد صلاته، وإن كانت مخالفة، قال عامة المشائخ تفسد صلاته وهو قول أبي حنيفة، ومحمد، وعن أبي يوسف فيه روايتان: والصحيح هو الفساد؛ لأنه أخبر بخلاف ما أخبر الله تعالى. (خانية على هامش الهندية/كتاب الصلاة/فصل: في قراءة القرآن خطأ في الأحكام المتعلقة بالقراءة، ١٥٢/١) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

ایک شخص نے زنا کیا ہے اسے پکڑلیا گیا ہے اب اس پر کیس بھی چل رہاہے تو کیا اس کے حق میں دعاء کرسکتے ہیں؟ یا نہیں کرسکتے؟ جو بھی حکم ہو ارشاد فرمائیں۔

الجواب وبالله التوفيق:
اگر زانی نے دعاء کرنے والے کے سامنے توبہ کرلی ہے تو اس کے حق میں دعاء کرسکتے ہیں، ورنہ نہیں۔

 مستفاد از:
(إمداد الفتاوى جديد مطول حاشيه، ١٧٩/٩، :ط زكريا ديوبند)

قال الله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان. (سورة المائدة، رقم الآية: ٢)

قال الله تعالى: ولا تأخذكم بهما رأفة في دين الله إن كنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر. (سورة النور، رقم الآية: ٢)

عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: التائب من الذنب كمن لا ذنب له. (ابن ماجة شريف/أبواب الزهد/باب ذكر التوبة، ص: ٣١٣، رقم الحديث: ٤٢٥٠، ط: دار السلام) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

Leave a Comment