ایک شخص ہکلاتا ہے اور اسکو ہکلاہٹ کی وجہ سے ۴ رکعات پڑھنے میں ۲۰ ۲۵ منت لگ جاتے ہیں تو کیا ایسا شخص سنت مؤکدہ چھوڑ سکتا ہے ?

الجواب وبااللہ التوفیق واضح رہے کہ احادیث مبارکہ میں سنت موکدہ کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں اور بلا عذر ترک کرنے پر وعیدہے ۔لھذا صورت مسئولہ میں شخص مذکور کو چاہئے کہ بہت مختصر قرآت کے ساتھ یعنی ما یجوز بہ الصلاۃ ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پر اکتفاء کرلے زیادہ لمبی قرآت نہ کرے مگر سنت موکدہ پڑھے سنت موکدہ کے چھوڑنے کی عادت بنا لینا خسارے کا باعث ہے اور ان شاءاللہ اس کی مشقت بھری عبادت مزید ثواب کا باعث ہوگی ۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ۔

عن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة بنى الله له بيتا في الجنة. اربع ركعات قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء وركعتين قبل الفجر.... ترمزي شريف. /ابواب الصلاه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم /باب. من صلى في يوم وليلة ثنتي عشرة ركعة من السنه/ج/١...ص...٤٣٩... رقم الحديث...٤١٤.... رجل ترك سنن الصلاة ان لم ير السنن حقا فقد كفر لانه ترك استخفافا وان راها حقا فالصحيح انه ياثم لانه جاء الوعيد بالترك كذا في المحيط السرخسي.... /الفتاوى الهندية /كتاب الصلاة /الباب التاسع في النوافل/.ج...١/ص/١١٢/..زكريا..

جب لوگ نماز پڑھتے ہیں اور اللہ تعالی کسی بندے پر نظر فرمالیں تو اس بندے کی اور اس کے پیچھے والے لوگوں کی اللہ تعالی مغفرت فرمادیتے ہیں؟

الجواب وبالله التوفيق: امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے “إحياء علوم الدين” میں اور علامہ ابو طالب مکی رحمتہ اللہ علیہ نے “قوت القلوب” میں مذکورہ روایت بلا سند ذکر کی ہے، نیز اس روایت کو بلا سند ذکر کرنے کے بعد علامہ ابو طالب مکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “وقد رفعه بعض الرواة الخ” بعض راویوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی ہے، نیز علامہ عراقی رحمتہ اللہ علیہ مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے: “مجھے یہ حدیث نہیں مل سکی”، اور علامہ مرتضی زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے “إتحاف” میں حافظ عراقی رحمتہ اللہ علیہ کے قول پر اعتماد کیا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔

وقد روينا عن أبي الدرداء فضيلة في الصف المؤخر، قال سعيد بن عامر: صليت إلى جنبه، فجعل يتأخر في الصفوف حتى كنا في آخر صف، فلما صلينا، قلت له: أليس يقال: خير الصفوف أولها؟ قال: نعم، إلا أن هذه أمة مرحومة منظور إليها من بين الأمم، وإن الله عز وجل إذا نظر إلى عبد منهم في الصلاة غفر لمن وراءه من الناس، فإنما تأخرت رجاء أن تغفرلي بواحد منهم ينظر الله إليه. وقد رفعه بعض الرواة أن أبا الدرداء سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ذلك. (قوت القلوب/الفصل الحادي والعشرون: كتاب الجمعة، ٢٠٧/١، ط: دار التراث، القاهرة) (إحياء علوم الدين/آداب الجمعة على ترتيب العادة، ١٨٣/١، ط: دار المعرفة، بيروت)

حديث أبي الدرداء: "إن هذه الأمة مرحومة منظور إليها من بين الأمم وإن الله إذا نظر إلى عبد في الصلاة غفر له ولمن وراءه من الناس" ولم أجده. (المغني عن حمل الأسفار/كتاب أسرار الصلاة ومهماتها/الباب الخامس: في فضل الجمعة وآدابها وسننها، ١٣٦/١، رقم: ٥٣٥، ط: مكتبة دار تيرية)

قال العراقي: لم أجده بهذا اللفظ وروى ابن عساكر في تاريخ دمشق. (إتحاف السادة المتيقن بشرح إحياء علوم الدين/بيان آداب الحمعة، ٢٦٦/٣، ط: مؤسسة التاريخ العربي، بيروت) فقط والله سبحانه وتعالى أعلم.

Leave a Comment