الجواب وباللہ التوفیق
صورۃ مسؤلہ میں تغیر فاحش اور معنی کی تبدیلی کی وجہ سے نماز فاسد ہو گئی لہذا نماز کا اعادہ کیا جائے۔
إن كانت الكلمة الثانية في القرآن فهو على وجهين، إما إن كانت موافقة للأولى في المعنى، أو مخالفة، فإن كانت موافقة لا تفسد صلاته - وإن كانت مخالفة - قال عامة المشائخ تفسد صلاته وهو قول أبي حنيفة، ومحمد، وعن أبي يوسف فيه روايتان والصحيح هو الفساد، لأنه أخبر بخلاف ما أخبر الله تعالى (خانية، كتاب الصلاة، فصل في قراءة القرآن خطأ في الأحكام المتعلقة بالقراءة على هامش الهندية ١٥٢/١ - ١٥٣ ، قاضيخان، جدید زکریا ٩٦/١)
وإن اختلفا متباعدا نحو أن يختم آية الرحمة بآية العذاب، أو آية العذاب بآية الرحمة ...... فعلى قول أبي حنيفة ومحمد : تفسد صلاته، وقيل في المسألة على قول أبي يوسف روايتان وفي الظهيرية: قال : والصحيح عندي أنه إذا وقف، ثم انتقل لا تفسد صلاته، وإن وصل تفسد وفي الخانية: والصحيح هو الفساد. (تاتارخانية، كتاب الصلاة، الفصل الثاني، مسائل زلة القاري، زكريا ٩٦/٢، رقم: ١٨٤٣) فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔
ایک حافظہ عورت کا رمضان المبارک میں تراویح کی نماز میں دیگر عورتوں کو قرآنِ کریم سنانے کا شرعی حکم کیا ہے؟ آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو کیا کوئی شرائط و قیود بھی ہیں، اور اگر ناجائز ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز، اس مسئلے میں مختلف فقہی مسالک کی آراء کیا ہیں؟
الجواب وبالله التوفيق:
حافظہ عورت کا تراویح کی نماز میں عورتوں کی امامت کرنا مکروہِ تحریمی ہے، اس لیے کہ عورتوں کا جماعت میں شریک ہونا فتنہ کا سبب ہے؛ البتہ اگر کوئی حافظہ عورت اپنا قرآن یاد رکھنے کی غرض سے تراویح میں قرآن سنانا چاہے تو اس کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورتوں کو تراویح میں قرآن سنائے اگر چہ یہ بھی خلافِ اولی ہے لیکن فی الجملہ اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ اور کوئی فتنہ نہ ہو، اور ایسی صورت میں وہ صف کے درمیان میں کھڑے ہوکر امامت کرے گی۔
عورتوں کی جماعت کے بارے میں ائمہ اربعہ کی آراء:
(١): شافعیہ اور حنابلہ نزدیک جائز ہے۔
(٢): مالکیہ کے نزدیک درست نہیں۔
(٣): حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے۔
مستفاد از
(کفايت المفتي قديم، ١٤٣/٣، ط: دار الاشاعت کراچی)
(فتاوى قاسمية، ٨/٤١٠، ط: الأشرفية ديوبند)